ویسے تو رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور بارہ بنکی کی دیوا شریف درگاہ میں گزشتہ دنوں اس کا خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملا۔ رنگوں کے چھینٹوں کو لے کر ہلکان رہنے والے قانون کے رکھوالوں کے لیے یہ حیرت کی بات ہے تو نفرت کی کھیتی کرنے والے ہر لیڈر کے لیے عبرت!
Published: undefined
اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے 42 کلو میٹر دور بارہ بنکی ضلع واقع دیوا شریف درگاہ کی آنگن میں رنگوں کی شاندار ہولی کے لیے ملک بھر میں تذکرہ ہو رہا ہے۔ یہ غالباً ملک کی ایسی پہلی ہولی ہے جس کا انعقاد مسلمان کرتے ہیں اور شامل ہونے کے لیے ہندو دوستوں کو مدعو کرتے ہیں۔ اس سے بھی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہولی درگاہ کے آنگن میں ہی کھیلی جاتی ہے۔
Published: undefined
دیوا شریف میں واقع درگاہ دنیا بھر میں مشہور حاجی وارث علی شاہ کی مزار ہے۔ وارث علی شاہ ہندوستان میں حسینی سید کی ایک فیملی میں پیدا ہوئے تھے اور انھیں انسانیت نواز تصور کیا جاتا ہے۔ صوفی سنت وارث علی شاہ کے نزدیکی لوگوں میں سبھی مذہب کے لوگ تھے۔ وہ سبھی کے دل کو خوش کرنے کے لیے ان کے تہوار مل جل کر مناتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ مل کر ہولی مناتے تھے۔ اب یہ روایت ایک بڑے تہوار میں بدل گئی ہے۔ اس کی کمان اب چار دہائی سے شہزادے عالم وارثی سنبھالتے ہیں۔
Published: undefined
منگل کو بھی ہولی کے موقع پر دیوا شریف درگاہ میں شاندار طریقے سے ہولی منائی گئی۔ یہاں اسی روایت کے تحت سینکڑوں لوگ رنگ اور گلال لے کر پہنچ گئے۔ ان میں بڑی تعداد میں مسلمان تھے۔ بعد میں ہندو طبقہ کے لوگ بھی پہنچے اور دونوں کے ساتھ مل کر رنگوں سے کھیلتے ہوئے یہاں کا آسمان بھی رنگین کر دیا۔ اس دوران وارث علی کے چاہنے والے ’جو رب ہے وہی رام ہے‘ جیسے صوفی ترانوں کو لگاتار گنگناتے ہوئے جم کر جھومتے رہے۔
Published: undefined
بارہ بنکی کے عمیر محمد کے مطابق تقریباً 30 سال سے وہ درگاہ کی ہولی دیکھتے آ رہے ہیں۔ یہ ان کے ابا کے زمانے سے بھی پہلے سے ہوتی آ رہی ہے۔ وہ بھی اب ہر سال یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ صوفی ازم کی ہولی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی عبادت ہی ہے۔ یہاں کوئی ہڑدنگ نہیں ہوتا۔ لوگ رنگ اور گلال اڑاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو رنگ لگاتے ہیں اور صوفی ترانوں پر تھرکتے ہیں۔ وہ سبھی وارث علی شاہ کے دیوانے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ متھرا، کاشی اور برج کی طرح دیوا شریف کی ہولی بھی مشہور ہے۔ اس میں شامل ہونے کے لیے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔ اکمل وارثی بتاتے ہیں ’’صوفی فقیر حاجی وارث علی شاہ نے مذہبی طور پر کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ انھوں نے اپنے قریبیوں کو یہی سکھایا کہ جو رب ہے وہی رام ہے۔ یہاں سبھی تہوار مل کر منائے جاتے تھے۔ اب یہاں ہولی منانے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔ صوفی ازم کا اصول بھی یہی ہے کہ ہم سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں۔ ہم آپس میں کوئی تفریق نہیں رکھتے۔ رنگوں میں سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ یہ برابری کا تہوار ہے۔‘‘
Published: undefined
آگرہ سے یہاں ہولی کھیلنے پہنچے ندیم احمد نے بتایا کہ وہ تیسری بار یہاں آئے ہیں۔ حضرت وارث علی شاہ کی درگاہ پر سلام عرض کرنے وہ آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تین سال سے وہ یہاں ہولی منانے بھی آ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس آنگن میں حضرت وارث بھی ہولی مناتے تھے، اس لیے ہم بھی منا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی دل کو تسلی دیتی ہے کہ کوئی بھی آدمی مذہب اور ذات کے نام پر چھوٹا بڑا نہیں ہے اور یہاں سب ایک رنگ میں ڈوبے ہوتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
دیوا شریف کی ہولی میں ہندو اور مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ سرفراز وارثی بتاتے ہیں ’’یہ ہولی کسی ایک مذہب کی ہے ہی نہیں۔ حضرت وارث علی شاہ کے الفاظ میں یہ انسانوں کا میلہ ہے جو ہر مذہب سے اونچا ہے۔ یہ آپسی بھائی چارے اور خیر سگالی والی ہولی ہے۔ ہر مذہب کے لوگ یہاں گلے مل کر مبارکباد دے رہے ہیں۔‘‘
درگاہ شریف کے آنگن میں مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے ایک ساتھ مل کر رنگ-گلال اڑانے کا نظارہ بالکل حیران کرنے والا لگتا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے بیرون ممالک سے بھی زائرین یہاں آ رہے ہیں۔ بارہ بنکی کے شاہ ویز وارث کہتے ہیں ’’کئی بار الگ الگ رنگ کے لوگ آپس میں گلے ملتے ہیں۔ یہ ملنا اپنی شناخت کے ساتھ دوسرے کی شناخت کے تئیں محبت اور احترام سے بھرا ہوتا ہے۔ بلّے شاہ بھی کہہ گئے ہیں ’’نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ... ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined