Published: undefined
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
Published: undefined
ایک گدھ میرے پاؤں پر اپنی چونچ سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ میرے جوتے اور جرابیں وہ پھاڑ چکا تھا۔ اب اس کے حملوں کا ہدف میرے پاؤں تھے۔ وہ بار بار میرے پاؤں کا گوشت ادھیڑنے کی کوشش کرتا، اس دوران وہ زمین سے کچھ ہی اوپر بڑی بے چینی سے پرواز کرتے ہوئے میرے ارد گرد ایک چکر لگاتا اور پھر نیچے آ کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔
Published: undefined
ایک شخص وہاں سے گزرا، تو پہلے اس نے کچھ دیر کے لیے یہ سارا منظر دیکھا، پھر مجھے پوچھنے لگا کہ میں اس گدھ کو کیوں برداشت کر رہا تھا۔ ’’میں تو اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتا،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آیا اور اس نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ میں ظاہر ہے اس کو یہاں سے بھگا دینا چاہتا تھا۔ میں نے تو اس کا گلا دبانے کی بھی کوشش کی۔ لیکن ایسے کسی جانور میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ تو چھلانگ لگا کر میرے چہرے تک آ جانا چاہتا تھا۔ تب میں نے اپنے پاؤں کی قربانی دینا ہی بہتر سمجھا۔ اب تو وہ بھی قریب قریب چیتھڑے بن چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
’’آپ نے اجازت ہی کیوں دی کہ آپ کو اس طرح اذیت پہنچائی جائے،‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایک گولی اور گدھ کا کام تمام۔‘‘ ’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ایسا کرنا چاہیں گے؟‘‘ ’’بڑی خوشی سے،‘‘ اس شخص نے کہا، ’’مجھے صرف گھر جا کر اپنی بندوق لانا ہو گی۔ کیا آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کر سکتے ہیں؟‘‘
Published: undefined
’’یہ میں نہیں جانتا،‘‘ میں نے کہا اور کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو گیا، جیسے میں درد سے پتھرا گیا تھا۔ پھر میں بولا، ’’براہِ مہربانی، آپ یہ کوشش ضرور کیجیے۔‘‘ ’’اچھا،‘‘ اس نے کہا، ’’میں بس گیا اور آیا۔‘‘
Published: undefined
گدھ یہ ساری گفتگو سکون سے سنتا رہا تھا اور اس دوران اس کی نظریں بار بار میرے اور اس شخص کے درمیان حرکت کرتی رہی تھیں۔ اسی لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
Published: undefined
وہ اڑا، رفتار پکڑنے کے لیے نیچی پرواز کرتے ہوئے کافی پیچھے تک گیا اور پھر نیزہ پھینکنے والے کسی کھلاڑی کی طرح اپنی چونچ سے وار کرتے ہوئے میرے منہ کے راستے میرے اندر دور تک اتر گیا۔
Published: undefined
پیچھے گرتے گرتے مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی تمام گہرائیوں کو بھر دینے اور تمام کناروں سے باہر تک پھیل جانے والے خون میں یوں ڈوب گیا تھا کہ وہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined