ابرارالحق اپنے گیت کو بغیر اجازت استعمال کرنے پر قانونی کارروائی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ابرارالحق کی قانونی کارروائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے ایک چیز ضرور واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی گلوکار اور ان کے گیت آج بھی بالی وڈ کی ضرورت ہیں جو کبھی انہیں انسپائر کرتے ہیں تو کبھی وہ ہوبہو کاپی کر لیتے ہیں۔
Published: undefined
بولتی فلموں کے دور کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ لاہور میں بننے والی فلم خزانچی (1941) کی موسیقی نے تہلکہ مچا دیا۔ اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے، جنہوں نے ہندوستان کے شاستریہ سنگیت اور پنجاب کی لوک موسیقی کی آمیزش سے دریا جیسی رواں دھنیں تخلیق کیں جن کی رو میں عام سامعین سے لے کر بمبئی کے نامور موسیقار تک بہہ گئے۔
Published: undefined
اس وقت بمبئی میں موسیقی سے وابستہ سب سے بڑے نام آر سی بورال، پنکج ملک اور انل بسواس تھے۔ بنگالی ہونے کے ناطے تینوں موسیقار رابندر سنگیت سے از حد متاثر تھے اور ان کی دھنیں ایک مخصوص دائرے میں قید ہو کر رہ گئی تھیں۔ ماسٹر غلام حیدر نے ان کے لیے ایک اور دیومالائی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ راجو بھارتن کی کتاب اے جرنی ڈاؤن میلوڈی لائن میں انل بسواس کا اعتراف ان کے اپنے ہی الفاظ میں کچھ یوں ہے،ہ "یہ ایک مدھر دھارا تھی جسے (سن کر) مجھے لگا کہ میں تو ایک مینڈک کی طرح کنویں میں قید ہوں۔ فطری طور پر مجھے احساس ہوا کہ اگر اپنے ذہن کی کھڑکیاں نہیں کھولوں گا تو ایک بہت محدود موسیقار بن کر رہ جاؤں گا۔ غلام حیدر کے وسیلے سے میں نے اپنے ذہن کا افق وسیع کیا۔"
Published: undefined
ماسٹر غلام حیدر کے انقلابی قدم سے محض انل بسواس ہی نہیں بمبئی کے کم و بیش تمام موسیقاروں کا ذہنی افق وسیع ہوا۔ موسیقار اعظم کے نام سے مشہور نوشاد علی کی پہلی کامیاب فلم رتن (1944) میں ایسے ہی شاستریہ سنگیت اور فوک دھنوں کا سنگھم ملتا ہے جو ایک فنکار کی دوسرے فنکار سے انسپائر ہونے کی بہترین مثال ہے۔
Published: undefined
خزانچی کے نام سے ہی بمبئی میں ایک فلم 1958ء میں بنی جس کے موسیقار مدن موہن اپنے مخصوص انداز سے ہٹ کر آبشار جیسی رواں دھنیں تخلیق کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور سے بمبئی جانے والے او پی نیر نے پنجابی انگ کی موسیقی سے پچاس کی دہائی میں تہلکہ مچا دیا۔ انہوں نے شمشاد بیگم کی آواز استعمال کی جو ماسٹر غلام حیدر کی مرکزی پلے بیک سنگر تھیں۔
Published: undefined
پاکستانی فنکاروں سے متاثر ہونے کا یہ سلسلہ محض دھنوں تک محدود نہ تھا بلکہ کئی بار خوبصورت مصرعے بھی فلم سازوں کے دلوں میں گھر کر گئے اور وہ ہر قیمت پر انہیں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس کی ایک مثال مجروح سلطانپوری کا وہ گیت ہے جو انہوں نے فلم چراغ (1969) کے لیے لکھا۔ ہدایت کار راج کھوسلہ فیض کے مصرعے "تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے" سے بے پناہ متاثر تھے اور اسے اپنی فلم کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ مجروح نے پہلے فیض صاحب کو خط لکھ کر اجازت لی اور پھر گیت لکھا جسے رفیع اور لتا نے اپنی آوازوں سے امر کر دیا۔
Published: undefined
اوپر دی گئی چند مثالیں فنکاروں کے "تخلیقی مکالمے" کا انتہائی خوبصورت اظہار ہیں جن میں خطوں اور یہاں تک کہ ثقافتوں کی تفریق بھی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ جہلم کے گلزار نے ممبئی میں بیٹھ کر "دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن" سے غالب اور "زحال مسکیں مکن برنجش" سے امیر خسرو کو ہمارا معاصر بنا دیا۔ بنگال کے سلل چودھری نے موزارٹ کی چالیسویں سمفنی کو ہندوستانی رنگ میں یوں پیش کیا کہ گمان گزرتا ہے "اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا" مقامی ثقافت سے پھوٹتی بھیرویں ہے۔ یہ بعد کے زمانے کے ایک فنکار کا اپنے دیوتا کو شاندار خراج تحسین ہے۔
Published: undefined
مگر افسوس کہ بات تخلیقی مکالمے تک محدود نہیں رہی بلکہ بالی وڈ نے بارہا پاکستانی گیت بغیر اجازت دھڑلے سے اپنی فلموں میں استعمال کیے۔ اس فہرست میں اگر راج کپور کا نام بھی شامل ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ 1973ء میں انہوں نے ریشماں کے گیت "اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے کول کول" کو انتہائی غیر جمالیاتی انداز میں بوبی کا حصہ بنا ڈالا۔ دوسری طرف سبھاش گھئی نے ریشماں کے ٹریڈ مارک لمبی جدائی کو نہ صرف ان کی آواز میں ریکارڈ کیا بلکہ ہیرو (1983) میں ان کے نام کے ساتھ پیش کیا اور بھرپور عزت افزائی کی۔
Published: undefined
نوے کی دہائی میں نصرت فتح علی خان کی مقبولیت نے بالی وڈ میں نئے ریکارڈ قائم کیے۔ یہاں بھی چربے اور تخلیقی سطح پر متاثر ہونے کے دونوں رویے ملتے ہیں۔ فلم میوزک کو نئے ذائقے سے آشنا کروانے والے عالمی شہرت یافتہ موسیقار اے آر رحمان نے شہنشاہ قوالی سے متاثر ہونے کے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا میں کہ جن دنوں میں روجا کی موسیقی ترتیب دے رہا تھا تب نصرت فتح علی خان کو سنا اور سوچا "میں اس طرح کا میوزک کیوں نہیں ترتیب دے سکتا یا ان کی طرح کیوں نہیں گا سکتا؟" انہوں نے وجو شاہ اور انو ملک کی طرح نصرت کی دھنوں کا بھونڈا چربہ کرنے کے بجائے قوالی کی روایت کو جذب کیا اور بعد میں "نور علی نور، عشق بنا کیا جینا یاروں اور کن فیکون"جیسے شاہکار ترتیب دیے۔ یہ ہے وہ رویہ جس کے فروغ کی بالی وڈ میں اشد ضرورت ہے۔
Published: undefined
بھارت میں ایک سے ایک بڑھ کر گلوکار موجود ہے لیکن راحت فتح علی خان، عاطف اسلم اور شفقت امانت علی کی آواز مسلسل ممبئی کی فضاؤں میں مدھرتا بکھیر رہی ہے جس کا مطلب ہوا پاکستانی فنکاروں کی اب بھی بالی وڈ میں پسند کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان وسیع ہوتی سیاسی خلیج کے پس منظر میں فنکاروں کے درمیان تخلیقی مکالمے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے گزشتہ پندرہ بیس برس سے سرقے اور تخلیقی سطح پر مکالمے کے درمیان توازن بری طرح بگڑ رہا ہے۔
Published: undefined
بالی وڈ ایک بڑی فلم انڈسٹری ہے جس نے مختلف خطوں سے آنے والے فنکاروں اور ثقافتی رنگوں کے لیے ہمیشہ اپنے بازو کشادہ رکھے۔ کسی کی دھن یا بول وغیرہ ہوبہو اٹھا کر اپنی فلم میں شامل کر لینا نہ صرف کاپی رائٹس کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسے فن کی بھی توہین کہا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined