شمال مغربی پاکستانی علاقے میں بدھ مت کی جس عبادت گاہ کے کھنڈرات ملے ہیں، وہ تین سو قبل از مسیح کے زمانے کے ہیں۔ یہ کھنڈرات سوات کے ایک قصبے میں اطالوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے تلاش کیے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین نے اس دریافت کو گندھارا تہذیب کی اہم ترین دریافتوں میں شمار کیا ہے۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے گندھارا سلطنت کا حصہ تھا۔ اس اہم تاریخ ساز سلطنت کے دور کا آغاز قریب ایک ہزار سال قبل از مسیح میں شروع ہوا تھا۔ اُس دور میں طاقت کی مسلسل چپقلش تھی اور اس باعث گندھارا سلطنت کے عروج میں سوات اور قریبی علاقے ہندومت، بدھ مت اور انڈو۔ گریک حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح منتقل ہوتے رہے تھے۔
Published: undefined
علاقائی چیف آرکیالوجسٹ عبد الصمد خان نے بدھ مت کی ایک قدیم ترین عبادت گاہ کے کھنڈرات کی اس دریافت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی علاقے میں گزشتہ برس ایک قدیمی ہندو مندر کے کھندڑات کو بھی تلاش کیا گیا تھا۔
Published: undefined
عبد الصمد خان کے مطابق ہندو مندر اور بدھ عبادت گاہ کے کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کی بلند سطح پائی جاتی تھی اور یہ ایک کثیر الثقافتی علاقہ بھی تھا۔ اسی علاقے میں سب سے پہلے مغربی اقوام میں سے یونانی افواج سکندرِ اعظم کی قیادت میں پہنچی تھیں۔
Published: undefined
علاقائی چیف آرکیالوجسٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ہی علاقے میں سے ہندو اور بدھ مذاہب کی عبادت گاہوں کی دریافت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقیدوں کے ساتھ شادمانی سے زندگی بسر کرتے تھے۔
Published: undefined
ہندو اور بدھ مذاہب کی عبادت گاہوں کے کھنڈرات کی دریافتوں میں اس دور کے قدیمی سکے اور مہریں بھی دستیاب ہوئی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ہزار سال قبل سوات ایک بڑا تہذیبی، کاروباری اور اشرافیہ کی سرگرمیوں کا مرکز و محور تھا۔
Published: undefined
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اطالوی اور پاکستانی ماہرینِ آثارِ قدیمہ اس علاقے میں مزید کھدائی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ قدیمی دور کے مزید کھنڈرات دستیاب ہو سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ نئے کھنڈرات اُس دور کی تاریخ اور معاشرت پر مزید روشنی ڈال سکیں گے۔
Published: undefined
اسی قدیمی دور میں سوات کا نام بازیرا تھا۔ اس قدیمی علاقے کی باقیات موجودہ سوات کے مرکزی شہر مینگورا سے بیس کلومیٹر کی مسافت پر دریائے سوات کے کنارے پر ہیں۔
Published: undefined
یہ امر اہم ہے کہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا آبائی وطن بھی سوات ہے۔ انہیں گرلز ایجوکیشن کے فروغ کی کوششوں کے خلاف مذہبی انتہاپسندوں نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔
Published: undefined