اس ہدایت نامے کے مطابق پاکستانی ٹی وی چینلز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈراموں میں نا مناسب لباس، شادی شدہ افراد کا کسی اور سے عشق، جیسے موضوعات کو دکھانے، حتٰی کے میاں بیوی کے ایک دوسرے کو پیار سے چھونے، گلے لگانے، اور بستر کے مناظر اور محبت بھرے لمحات کو دکھانے سے اجتناب کریں۔
Published: undefined
پیمرا کے مطابق، اس کا یہ قدم ان سینکڑوں شکایات کا نتیجہ ہے جو وزیراعظم عمران خان کے سٹیزن پورٹل پر درج کی گئی ہیں، یا پیمرا کے اپنے شکایات سیل اور سوشل میڈیا سے وصول ہوئی ہیں۔ پیمرا کے اس اقدام کو پاکستانی ڈرامے سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے حیران کن اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسرز کی مرکزی تنظیم یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین حسن ضیاء نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ انتہائی حیران کن قدم ہے۔ ''گزشتہ بیس سالوں سے ہم نے ٹی وی ڈرامہ دیکھنے والوں کو ایک خاص انداز میں تیار کیا ہے، اور ڈرامہ تیار کرنے والے تمام افراد اپنے معاشرے کی ثقافت اور حدود سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے ٹی وی پر رومانوی مناظر تو ہوتے ہیں، مگر کوئی حد پار نہیں کی جاتی۔''
Published: undefined
حسن ضیاء نے مزید کہا کہ یہ خواہ مخواہ کا نوٹس ہے کیونکہ ڈرامہ بنانے والے تمام افراد اس بات کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے والے چند افراد کی وجہ سے پیمرا کو یہ خیال آیا ہے، اور سوال یہ ہے کہ یہ ہمیں کس جانب لے کر جانا چاہ رہے ہیں، یہ حکومت کی پالیسی ہے یا پیمرا کا اپنا کام ہے، مگر اس قدم سے ٹی وی ڈراموں میں گھٹن کا احساس مزید بڑھےگا۔
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانیوں کے پاس اینٹرٹینمنٹ کے نام پر ایک ڈرامہ ہی بچا ہے اب اس کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں 80 کی دہائی میں واپس لےجایا جارہا ہے جبکہ کسی بھی صحت مند معاشرے میں پابندیاں عائد کرنا اچھی بات نہیں ہے۔
Published: undefined
اس بارے میں پاکستان کی نامور اداکارہ ثانیہ سعید نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر محبت اور پیار کی زبان برداشت نہیں ہوتی تو اصل مسئلہ سوچ کا ہے اور اسی سوچ کے تحت پھر پیمرا اس قسم کے نوٹس جاری کرتا ہے۔
Published: undefined
ثانیہ سعید نے کہا،'' مسئلہ ہمارے خیالات کا ہے جو بےقابو ہیں۔ ڈرامہ دیکھتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ اسکرین پر نظر آنے والے اداکار اپنے کردار ادا کرہے ہیں۔ اگر کسی منظر میں ایک شوہر اور بیوی محبت کے اظہار کے لیے ہاتھ پکڑتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو ہدایتکار صرف یہی دکھانا چاہتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب اس سے آگے سوچنا شروع کردیا جاتا ہےاور یوں ہر چیز فحش اور بیہودہ نظر آنے لگتی ہے۔''
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈرامہ پروڈیوسرز پہلے ہی محتاط رہتے ہیں کہ قربت کے مناظر دکھاتے وقت معاشرتی اور اخلاقی روایات کا خیال رکھا جائے۔ اس کے علاوہ اداکار بھی قربت کے مناظر ریکارڈ کرواتے وقت ہچکچاہٹ کا شکار ہی رہتے ہیں اور جب تک کسی منظر میں ضرورت نہ ہو کسی اداکار کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔
Published: undefined
کامیاب ڈرامہ سیریل رقصِ بسمل کی پروڈیوسر شاذیہ وجاہت نے نے کہا،''ہمارے ڈرامے تو پہلے ہی کئی قسم کے سینسر سے گزرتے ہیں اور کسی بھی قسم کا بیہودہ اور جنسی مواد تو دکھایا ہی نہیں جاتا، اور پھر پاکستانی اداکارائیں بھی بہت قربت کے مناظر عکس بند کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتیں، تو ایسے میں اس نوٹس کی ضرورت ہی کیا تھی۔''
Published: undefined
شاذیہ وجاہت کے مطابق،'' ہاتھ پکڑنے یا گلے لگانے پر بھی پابندی حیران کن ہے کیونکہ اگر کہانی میں اس منظر کی ضرورت ہے کہ ایک شوہر اپنی پریشان بیوی کو دلاسہ دے رہا ہے تو وہ اس کا ہاتھ ہی پکڑےگا یا گلے لگائےگا، اب اس میں کون سی فحاشی ہے، اوراس طرح کی پابندیاں ہمارے تخلیقی عمل کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، ہم آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے کی طرف چلے جائیں گے۔''
Published: undefined
ڈراماہ 'گھسی پٹی محبت‘ کے مصنف فصیح باری خان نے ڈی ڈبلیو سے کہا کہ ہمارے ڈرامے پہلے موضوعات کی پابندیوں کی وجہ سے نچلی سطح پر آئے اب رہی سہی کسر یہ 'ایب نارمل‘ اخلاقیات سے جُڑا حکم نامہ پوری کردے گا۔
Published: undefined
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا،''میرا خیال ہے یہ کام شاید موجودہ ملکی صورت حال سے کہیں زیادہ خوفناک اور تشویشناک ہے جس کی وجہ سے حکومت نے انتہائی سنگین حالات کے باوجود لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا ہے۔''
Published: undefined
مصنف ساجی گُل نے ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں کہا،'' پاکستانی ڈرامہ پہلے ہی اس معاشرے کا سینسرڈ ورژن ہے، اگر اس کا موزانہ ہم نیوز چینلز ہی سے کرلیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو معاشی میدان میں بدترین ناکامی کا سامنا ہے اور اب وہ اپنی توجہ صرف ٹی وی اسکرین پر مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ٹی وی ڈرامے میں تشدد جتنا مرضی دکھائیں پیمرا کو مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن محبت دکھانے پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔
Published: undefined
مانی پاکستان کے معروف اداکار اور ٹیلیویژن میزبان ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں پیمرا جیسے اداروں کا قیام اتنا ہی ضروری ہے تو اس میں متعلقہ افراد کا ہونا ضروری ہے جیسے ڈراموں کے شعبے میں اداکاروں، ہدایت کاروں، لکھاریوں اور پروڈیوسرز، تاکہ وہ فن کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے کسی مسئلے کا بہتر حل تلاش کرسکیں۔
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا اور حکومت کی جانب سے ڈراموں پر اس طرح کی 'اخلاقی پابندیاں‘ 80 کے عشرے میں چل گئی تھیں لیکن اب ان کا ان کا اطلاق ناممکن ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے درخواست کی کہ وہ پیمرا کی ان ہدیات کا فوری طور نوٹس لیں۔
Published: undefined
مانی کے مطابق ٹی وی ڈرامے پر اس طرح کی پابندیاں یقینا اس میں کام کرنے والے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کی اگر کسی ڈرامے میں ایک خاص مقصد یا پیغام کے لیے کسی قسم کا جنسی مواد موجود ہے تو اس میں تیرہ یا اٹھارہ سال کی عمر کی پابندی لگادیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز