آووکادو کی مسلسل بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں اسے 'سبز سونا‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت کو براعظم افریقہ کے بارانی علاقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ سن 1990 کے مقابلے میں اس کی عالمی طلب بھی بے پناہ بڑھ چکی ہے۔ عالمی مانگ میں اضافے کی وجہ سے کئی افریقی ممالک اس کی فارمنگ کو اپنی زرعی پالیسیوں میں فوقیت دے رہے ہیں۔
Published: undefined
مشرقی یوگنڈا کے ایک کاشتکار بیکر سینگینڈو کا کہنا ہے کہ آووکادو کے پودے کی اوسط عمر پچاس برس ہے اور ان کے ملک میں عام شہریوں کی اوسط فی کس عمر ساٹھ برس ہے۔ وہ ایک ہزار ایکڑ پر آووکادو فارمنگ کا منصوبہ شروع کر چکے ہیں اور یہ یوگنڈا کا سب سے بڑا آووکادو فارم ہے۔
Published: undefined
اس وقت دنیا میں آووکادو کی طلب بے پناہ ہے اور گزشتہ تیس برسوں میں اس کی کھپت صرف امریکا میں ہی 406 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ کینیا میں بھی بارش کی وجہ سے آووکادو کی فارمنگ کے لیے روایتی آب پاشی پر انحصار نہیں کیا جاتا۔ اندازہ ہے کہ زیریں صحارا کے علاقے میں بارشوں کے بدلتے ہوئے موجودہ نظام کے تناظر میں آئندہ برسوں میں آووکادو کی فارمنگ میں کمی ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
ورلڈ ایگروفارسٹری سینٹر نیروبی کے سائنسدان سیمی کارسن کا کہنا ہے کہ آووکادو ایک 'خدائی تحفہ‘ ہے اور یہ افریقی براعظم میں کافی کے نعم البدل کے طور پر اگایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں مسابقتی عمل بڑھنے سے کافی کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ سن 2019 میں کافی کے کسانوں کی آمدنی میں تیرہ فیصد کمی ہوئی تھی۔
Published: undefined
نائجیریا کے سابق صدر اوباسانجو نے تو آووکادو کو خام تیل کا متبادل بھی قرار دے دیا تھا۔ نائجیریا کے سیاستدان اس وقت ملک میں آووکادو کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر سمجھے جاتے ہیں۔
Published: undefined
آووکادو سوسائٹی آف نائجیریا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آدنیی سولابنومی کا کہنا ہے کہ سابق صدر سن 2030 تک اپنے ملک کو اس پھل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک بنانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ سوسائٹی چھوٹے کسانوں کو آووکادو فارمنگ کی تربیت بھی دیتی ہے۔
Published: undefined
یوگنڈا میں بھی حکومت اس مناسبت سے کسانوں کی مالی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کئی دوسرے افریقی ممالک میں بھی آووکادو فارمنگ کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی جاتی ہے۔
Published: undefined
دنیا میں آووکادو کی طلب میں بہت زیادہ اضافے کے ساتھ ساتھ چند منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ ماحول پسندوں نے اس کی بڑھتی ہوئی کاشت کے ساتھ پانی کی کمی اور علاقائی حیاتیاتی تنوع کی تباہی کا ذکر کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ آووکادو کا درخت اپنی افزائش کے لیے زمین کے نیچے سے پانی زیادہ حاصل کرتا ہے اور اس باعث کئی دوسرے پودے پانی نا ملنے سے مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
لاطینی امریکا میں ماحولیاتی مسائل نے اس کی کمرشل کاشت پر گہرے سائے پھیلا دیے ہیں۔ میکسیکو اور چلی اس کی کاشت اور برآمد والے بڑے ملک سمجھے جاتے ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب افریقہ میں سائنسدانوں اور کسانوں کے مطابق آووکادو فارمنگ کا مستقبل زیادہ شاندار ہے۔ زیادہ بارش والے افریقی علاقوں میں چھوٹے زمینی قطعوں کے مالک کسانوں کے لیے اس کی فارمنگ بہت فائدہ مند تصور کی جاتی ہے اور یہ ماحول کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں جتنی براعظم جنوبی امریکا کے لیے۔
Published: undefined
لاطینی امریکی ملک میکسیکو آووکادو کا آبائی وطن قرار دیا جاتا ہے اور دنیا میں یہی اس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک بھی ہے۔ اس کا ایک اور نام 'ایلیگیٹر پیئر‘ بھی ہے۔ اس کے درخت کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور ان کی اونچائی بھی متنوع ہوتی ہے۔ کئی لاطینی امریکی ملکوں اور جزائر کیریبیین میں بھی آووکادو کی فارمنگ صدیوں سے کی جاتی ہے۔ اس پھل کی پیداوار کی معلوم تاریخ ماضی میں پانچ ہزار سال قبل از مسیح تک جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined