بلوچستان کا نام سامنے آئے تو سنگلاخ بنجر پہاڑ تصور میں آتے ہیں۔ کسی زمانے میں بلوچستان کے بہت سے علاقے سرسبز بھی تھے مگر موسمیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کی کمی کے باعث اب وہ سبزہ بھی غائب ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع پر فضا مقام ’مولا چٹوک‘ نا صرف اپنی خوبصورتی میں یکتا ہے بلکہ ابھی تک موسمی اثرات اور سیاحوں کی پھیلائی آلودگی سے پاک ہے۔
Published: undefined
مولا چٹوک تک پہنچنے کا ایک راستہ ضلع جھل مگسی سے بھی جاتا، جس سے آگے دریائے مولا ہے۔ جھل مگسی کے رہائشی ببرک کارمل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مقام کا نام مولا چٹوک مقامی افراد نے رکھا ہے۔ بلوچی زبان میں مولا کسی چھوٹے سے علاقے اور چٹوک آبشار کو کہا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اسے مولا کی آبشار بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں متعدد چھوٹی بڑی آبشاریں ہیں، جن کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ان میں سے ایک چھوٹی آبشار کے قریب پیر چنال کا مزار ہے، جس کے تالاب میں مچھلیاں بھی ہیں مگر مقامی افراد سیاحوں کو ان کا شکار کرنے سے روکتے ہیں۔
Published: undefined
فہد جیلا نی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ایوارڈ یافتہ فوٹو گرافر ہیں۔ فہد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ بلوچستان میں پسنی، گوادر، کوسٹل ایریاز اور ہنگول نیشنل پارک تقریبا ہر جگہ فوٹو گرافی کر چکے ہیں۔ چند سال قبل انہیں ایک دوست سے مولا چٹوک کی خوبصورت آبشار کے بارے میں معلوم ہوا تو کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے دوستوں کے ساتھ یہاں پکنک کا پروگرام بنایا۔ یہ مقام کراچی سے تقریبا 600 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور خضدار سے آگے زیادہ تر راستہ پتھریلا ہے۔
Published: undefined
فہد بتاتے ہیں کہ مولا چٹوک تک پہنچنے کے دو اہم راستے خضدار سے نکلتے ہیں اس سے آگے تقریبا 65 کلومیٹر کا کچا راستہ ہے، جو کار کے ذریعے طے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے فور وھیلر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے پتھریلے راستے اتنے دشوار ہیں کہ فور وھیلر تقریبا 45 ڈگری کے زاویے پر چلتے محسوس ہوتے ہیں،''جب ہم نے مولا چٹوک پہنچ کر اپنے گائیڈ کے کہنے پر پہاڑ چڑھنا شروع کیا تو یہ جگہ کچھ بھی پر کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہی سنگلاخ پہاڑ تھے جو بلوچستان کی پہچان ہیں مگر کوئی 20 منٹ کی چڑھائی کے بعد یک دم جب پہاڑوں میں گھری مولا کی آبشار پر نظر پڑی تو کچھ لمحوں کے لیے ہم مبہوت رہ گئے۔‘‘
Published: undefined
فہد بتاتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے تقریبا سب ہی علاقوں میں سفر کر چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ امر انتہائی حیران کن تھا کہ بلوچستان میں اتنی خوبصورت آبشاریں بھی موجود ہیں۔ بڑی اور چھوٹی آبشاروں کے ساتھ نیلگوں شفاف پانی کے تالاب سیاحوں کو مسحور کر دیتے ہیں، جن کا پانی بہت ٹھنڈا اور فرحت بخش محسوس ہوتا ہے۔
Published: undefined
فہد جیلانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ بلوچستان میں ایسے علاقوں پر جاتے ہوئے ایسٹروفوٹوگرافی کے لیے درکار تمام چیزیں ساتھ لے کر نکلتے ہیں کیونکہ آبادی سے دور پہاڑوں میں گھرے یہ علاقے روشنی کی آلودگی سے پاک ہوتے ہیں اور فلکیاتی فوٹو گرافی کے لیے انتہائی موزوں جگہ سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے ساتھی مولا کی آبشار کے قریب رات گزارنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ اس جگہ سانپ اور بچھو کثرت سے ہوتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا، جہاں سے آبشار کے ساتھ ملکی وے گلیکسی کو بخوبی کیمرے میں محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ واپسی پر جب انہوں نے اس رات کھینچی گئی تصاویر پروسیس کیں تو وہ خود بھی حیران رہ گئے تھے۔
Published: undefined
فہد کے مطابق اس جگہ کو اگر حکومتی سر پرستی میں لے کر سیاحتی مقام قرار دے دیا جائے تو بلوچستان حکومت اس سے کافی ریوینیو حاصل کر سکتی ہے۔ اس طرح مولا چٹوک کے قدرتی حسن کی حفاظت میں بھی مدد ملے گی وگرنہ کچھ ہی عرصے میں یہاں سے آنے والے سیاح بھی اس خوبصورت مقام کو آلودگی کا ڈھیر بنا دیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز