منٹو نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا 'پاکستان زندہ باد‘ اور’پاکستان اور ہندوستان زندہ باد‘ کا آنسوؤں میں ڈوبا نعرہ بلند ہوا اور منٹو چپ چاپ باجو کی گلی سے پاکستان پہنچ گئے۔
Published: undefined
پاکستان، خوابوں کا ایسا نگر جس کے بارے میں منٹو نے عصمت چغتائی سے کہا تھا کہ وہاں 'حسین مستقبل ہے۔ ۔۔۔۔۔وہاں ہم ہی ہم ہوں گے۔ بہت جلد ترقی کر جائیں گے۔‘ کچھ ہی عرصے میں سنہرے سپنے دیکھنے والا بانکا افسانہ نگار خواب نگر کی زرد دھوپ میں کُملا رہا تھا۔ انگاروں بھری آنکھیں ویران کھنڈر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اجلی مسکراہٹ کی جگہ موت کے روزافزوں سائے پھیل رہے تھے۔ پہاڑ جیسی انا کا مالک منٹو اسی عصمت چغتائی سے لجاجت بھرے لہجے میں بمبئی بلوانے کی عرضیاں بھیج رہا تھا۔ یہاں تک کہ میانی صاحب قبرستان سے بلاوا آ گیا۔
Published: undefined
بمبئی سے ہجرت کے بعد منٹو تقریباً سات برس لاہور میں رہے اور بعض حوالوں سے یہ ان کی زندگی کا بدترین دور تھا۔ ریاستی اعتاب، لکھنے کے لیے کسی مستقل ٹھکانے کی عدم دستیابی، غیر مستحکم فلم انڈسٹری میں کام کی کمی، پبلشرز کی مفاد پرستی، ریڈیو پاکستان کی پابندی اور ان سب مسائل کی کوکھ سے جنم لیتی معاشی بدحالی نے منٹو کو ایسے راستے پر گامزن کیا جہاں میانی صاحب کا پڑآؤ ہی واحد جائے پناہ بچتی ہے۔ اس دوران منٹو مسلسل بمبئی کو ایسے یاد کرتے رہے جیسا کوئی بے بس بوڑھا اپنے عہد شباب کی کلکاریاں یاد کرتا ہے۔
Published: undefined
اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے نقوش کے مدیر محمد طفیل نے لکھا کہ منٹو اچانک بمبئی کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے 'ارے یار بمبئی کا کیا پوچھتے ہو۔ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ بڑے ٹھاٹھ سے دن گزارے ہیں۔ڈیڑھ دو ہزا کی آمدن تھی۔ بڑی قدر تھی۔ ہر کوئی منٹو منٹو کرتا تھا۔‘
Published: undefined
ایسا نہیں کہ بمبئی کی زندگی پریشانیوں سے یکسر خالی تھی۔ لیکن وہاں ایسا بندوبست ضرور تھا کہ منٹو ایک معقول زندگی گزار سکیں، بس اتنی معقول جتنی کی توقع ایسے تیکھے اور منہ پھٹ ادیب سے کی جا سکتی ہے۔ منٹو بمبئی میں مصور کے ایڈیٹر رہے ہوں یا امپیریل فلم کمپنی اور فلمستان کے ساتھ وابستہ، ان کے پاس ہمیشہ بیٹھنے کا ایک صاف ستھرا ٹھکانہ رہا۔
Published: undefined
پاکستان کے نامور صحافی خالد حسن نے احمد راہی کے حوالے سے لکھا کہ وہ کہا کرتے تھے 'منٹو اکثر اپنے پبلشرز سے کہتا کہ اسے کوئی جگہ دی جائے جہاں وہ بیٹھ کر کام کر سکے۔ مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا۔ اس کی زندگی بالکل غیر منظم اور بے ترتیب ہو چکی تھی۔ بمبئی میں ہوتا تھا تو صبح اسٹوڈیو چلا جاتا، سارا دن کام کرتا اور پھر شام کی تیاری کرتا۔ وہ اپنے کےٹو پیتا، کھانا کھاتا اور سو جاتا۔ اگلے روز پھر کام پر چلا جاتا۔‘
Published: undefined
مصور میں 'بال کی کھال‘ جیسے مضامین کے تندوتیز سلسلے کی بدولت منٹو کی فلم انڈسٹری میں خوب دھاک بیٹھ چکی تھی۔ وہ کہانی بیان کرنے اور سیٹھوں کو شیشے میں اتار لینے کے فن سے بھی خوب آشنا تھے اس لیے اکثر و بیشتر محفل میں چھائے رہتے۔ منٹو جیسے محفل آرا شخص کے لیے یہ نشستیں زندگی کا خوبصورت تجربہ تھیں۔ فلم سے معقول آمدن اور عمدہ شراب کا بندوبست بھی ہو جاتا تھا جس کے لیے منٹو لاہور میں ترستے رہے۔
Published: undefined
پاکستان میں فلم انڈسٹری کے ابتدائی دنوں میں کام نہ ہونے کے برابر تھا اور منٹو کی معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ اگرچہ مسعود پرویز نے انہیں بیلی کی کہانی اور اسکرپٹ کے پانچ ہزار روپے ادا کیے لیکن کوئی مستقل سلسلہ قائم نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ان کی کہانی پر محض ایک فلم آغوش بن سکی۔ اب منٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ رسالوں کے لیے دھڑا دھڑ مضامین، کہانیاں اور خاکے لکھیں۔
Published: undefined
ایک وقت تھا جب پبلشرز پیشگی رقم ادا کرنے کے باوجود افسانہ حاصل کرنے کے لیے منٹو کی منتیں کرتے تھے۔ اور ان کا معاوضہ پچاس روپے تھا۔ بٹوارے کے بعد دیگر ذرائع آمدن مسدود ہو چکے تھے، مزید ظلم یہ کہ پبلیشرز نے پیسے بھی کم کر دیے۔
Published: undefined
فارغ بخاری کے مطابق اس وقت منٹو نے معیار نظر انداز کر دیا اور قلم کے جھاڑو سے اپنے دماغ کے کونے کھدرے تک صاف کر ڈالے۔ 'اس کے افسانے پچاس روپے معاوضہ کی بجائے تیس، بیس اور آخر میں پندرہ، دس روپے میں جانے لگے۔ وہ نقوش، سویرا اور ادب لطیف کے ساتھ ساتھ شمع، ڈائریکٹر اور فلم لائیٹ جیسے گھٹیا اور سستے پرچوں میں چھپنے لگا۔ ادب سے صحافت پر اتر آیا۔‘
Published: undefined
ان کی معاشی بدحالی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ نواب مظفر قزلباش کے روزنامہ منشور کے لیے روزانہ دس روپے کے عوض کالم لکھنے پر مجبور ہو گئے۔ اتنی محنت کے باوجود منٹو کے لیے قرض کی لعنت سے بچنا ممکن نہ تھا۔
Published: undefined
دوسری جنگ عظیم کے وقت جب بمبئی میں سگریٹ اور شراب کا کال پڑا تب منٹو کے پاس اضافی پیکٹ اور 'فربہ اندام‘ بوتلیں موجود رہتی تھیں۔ وہ نہ صرف خود اڑاتے بلکہ دوستوں کی بھی سیوا کرتے۔ فیض صاحب کے لیے شراب نوشی کی محفل کا بندوبست کرنا ہو یا میرا جی اور راجہ مہدی علی خاں جیسے بلانوشوں کا خرچ برداشت کرنا منٹو کے لیے مسئلہ نہ تھا۔
Published: undefined
منٹو کی زندگی کا لاہور میں آنکھوں دیکھا حال ابوالحسن نغمی نے بیان کیا ہے کہ 'جب ان سے کوئی پوچھتا آپ کونسا سگریٹ پینا پسند فرمائیں گے؟ وہ ہمیشہ کہتے 'وہ جس میں سے دھواں نکلتا ہو۔‘
Published: undefined
اعلٰی شراب خریدنے کی سکت اب کہاں تھی سو جم خانہ کی انتہائی گھٹیا اور مہلک شراب پیتے رہے۔ وہ جم خانہ کی شراب کو 'یتیم خانہ کی شراب‘ کہتے۔ منٹو جیسا شخص ایک پوّا منگوانے کے لیے دوسروں کا تھا۔
Published: undefined
شراب منٹو کی زندگی کا ہمیشہ سے حصہ تھی۔ ابتدا میں یہ سرمستی اور شادمانی کا ذریعہ تھی بعد میں 'اک گونہ بیخودی‘ والا معاملہ بن گیا۔ مرلی کی دھن میں مقدمات اور آئے دن کی چخ چخ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اس دوران 'غم غلط کرنے کے لیے کثرت سے شراب نوشی کی۔‘
Published: undefined
وہ شراب نوشی کا عمل اپنے دیگر تمام کام کی طرح خوش اسلوبی سے جاری رکھتے اگر انہیں لاہور میں ڈھنگ سے جینے کا موقع میسر آتا۔ منٹو کے ہر کام میں نفاست تھی جو لاہور کی زندگی نے چھین لی اور اس کا اثر ان کے رہن سہن اور ناؤ نوش پر بھی پڑا۔
Published: undefined
کراچی میں اوپر نیچے اور درمیان کی سماعت کے لیے منٹو لاہور سے گئے اور بعد میں ان کی ملاقات مذکورہ مقدمے کے جج مہدی علی صدیقی سے ہوئی۔ اس دوران منٹو نے ان سے ایک سوال کیا کہ 'آپ نے دوران سماعت مجھے بیٹھنے کے لیے کیوں کہا، مجھ سے تو کسی بھی مجسٹریٹ نے ایسا برتاؤ نہیں کیا۔‘
Published: undefined
منٹو کا گستاخی کی حدوں کو چھوتا رویہ شاید ان کے اندر جھانکنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ عدالتی عملے کے رویے پر یوں حساس ہونے والا منٹو کیسا محسوس کرتا ہو گا جب اسے ریڈیو سے بین کیا گیا ہو گا؟ جب اسے بار بار مقدمات کی پیشیوں میں زلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا؟ جب دوست اسے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہوں گے؟ جب ترقی پسندوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ہو گا۔
Published: undefined
منیر احمد شیخ کے بقول منٹو کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ لائبریریوں کے دروازے ان کی کتب پر بند ہیں۔ ان کے بقول منٹو کہتے تھے 'میرے مرنے کے بعد اگر لائبریریوں کے دروازے میری کتابوں پر کھل گئے تو مجھے قبر کے اندر بہت دکھ پہنچے گا۔‘
Published: undefined
ایسا لگتا ہے لاہور نے انہیں اپنایا نہیں۔ ان کے نام پر کسی قومی عمارت کا نام نہ ہی کوئی شاہراہ یا ادارہ ان سے منسوب کیا گیا۔ لاہور میں ان کی اکلوتی نشانی میانی صاحب قبرستان میں ان کے نام کی تختی ہے۔
Published: undefined
دہلی ریڈیو اسٹیشن پر سو سے زائد ڈرامے لکھنے والے منٹو کو نہ صرف ریڈیو پاکستان سے بین کیا گیا بلکہ ان کی موت پر رسمی پروگرام کا تکلف تک نہ کیا گیا۔ ربی سنکر بل کے شاہکار ناول دوزخ نامہ، جسے اُردو میں انعام ندیم نے انتہائی خوبصورتی سے ترجمہ کیا، میں منٹو مرزا غالب کو اپنی زندگی کے آخری ایام کی کتھا سناتے ہوئے کہتے ہیں 'میں نے توقع کی تھی کہ پاکستان میں مجھے افسانہ نگار کے طور پر عزت ملے گی، میں نے ہندوستان سے یہ سوچ کر ہجرت کی تھی کہ پاکستان میرا وطن ہے لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ مجھے ایک آوارہ کتے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔‘
Published: undefined
معاشی بدحالی اور مقدموں کے مصیبت سے وہ ایسے زچ تھے کہ مرلی کی دھن میں لکھا 'میرا دل اس قدر کھٹا ہو گیا کہ جی چاہتا تھا اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کر دوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو ۔۔۔ چُنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں۔‘
Published: undefined
ترقی یافتہ دنیا میں چُنگی کے ملازمین کی بھی اس سے زیادہ عزت ہو گی جو ہم نے اپنے سب سے بڑے فکشن نگار کو دی۔ پھر بھی اگر آپ کو لگتا کہ ان کی موت کثرت مے نوشی سے ہوئی تو منٹو کے بقول آپ 'بہت بڑے فراڈ‘ ہیں۔ 'فاروق اعظم'
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined