اپنی نوعیت کے اس منفرد سیشن سے خطاب کرنے والوں میں LUMS یونیورسٹی اور علی انسٹی ٹیوٹ جیسے تعلیمی ادارے قائم کرنے والے ملک کے ممتاز بزنس مین سید بابر علی بھی شامل تھے۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھانے کی اجازت صرف ان شخصیات کو ہی ملنی چاہیے جو حقیقی طور پر بچوں سے محبت کرتی ہوں۔ ایسی شخصیات کی بچوں کو انسپائر کر کے ان کی زندگیوں کو مثبت راستوں کی طرف کامیابی سے گامزن کر سکتی ہیں۔
Published: undefined
سید بابر علی کا کہنا تھا کہ بچوں کی کامیابی کے لئے ان میں مطالعے کا شوق پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کے بقول ان کے لیے یہ بات خوشی کا باعث ہے کہ کئی سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
Published: undefined
سید بابر علی کے بقول، '' بچے اتنا وقت اپنے والدین کے ساتھ نہیں گزارتے جتنا وقت اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی تعلیم و تربیت کی بہتری کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں سے بھی کہیں زیادہ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو بہتر بنایا جائے اور ان کے علم کو اپ ڈیٹ کیا جائے۔‘‘ ان کے خیال میں بچوں کے استاد کو بچوں کا حقیقی معنوں میں رہنمائی کرنے والا ہونا چاہیے۔
Published: undefined
سید بابر علی نے اپنی یادیں بانٹنے ہوئے کہا کہ انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے 1945ء میں گریجویشن کی تھی: ''ان دنوں کتابیں پڑھنے کا شوق موجود تھا۔ امتیاز علی تاج کا ادارہ دارالاشاعت کتابیں اور رسائل شائع کرتا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کئی دیہات میں لوگوں کے پاس لائبریریاں ہوا کرتی تھیں پھر آہستہ آہستہ یہ روایتیں ختم ہوتی گئیں۔‘‘
Published: undefined
سید بابر علی نے علاقائی زبانوں کو نظرانداز نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنی لوک کہانیوں، مقامی تاریخ اور علاقائی ثقافتوں پر مبنی کتابیں مادری زبانوں میں شائع کر کے بچوں کومطالعے کے لیے دینا چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھے کاموں کے لیے ہمیشہ حکومت کی طرف دیکھنا مناسب نہیں معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
Published: undefined
اس سے قبل اس سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں سویڈن کی سفیر انگرڈ جوہانسن کا کہنا تھا پیپی لونگ سٹاکنگ نامی کریکٹر کی خالق سویڈش مصنفہ بچوں کے حقوق کی داعی تھیں اور انہوں نے اپنے اس کردار کے ذریعے مختلف عمروں کے بچوں کو امن کا پیغام دیا۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اعانت سے پیپی لوند سٹاکنگ کی کہانیوں کا اردو ترجمہ بھی اسی سال شائع کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول یہ امر تشویش کا باعث ہونا چاہیے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور بچوں کی بہت بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔
Published: undefined
گلگت بلتستان کے ایک سرکاری سکول میں پڑھانے والی ایک معلمہ مہر زیدی رحمان کا کہنا تھا کہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ طلبہ و طالبات کو درسی کتابوں تک محدود کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے سیشن کے حاضرین کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے سکول میں کوئی لائبریری نہیں ہے۔
Published: undefined
جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ سے آئی ہوئی ایک معلمہ نادیہ پروین نے بتایا کہ کتابیں پڑھنا تو دور کی بات، ان کے علاقے میں بچوں کو سکول لانا ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس علاقے کے عوام مزدوری کے لیے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور بچوں کی اخلاقی تربیت، نصابی ترقی اور کتب بینی کی طرف بچوں کی رغبت سمیت یہ سارے کام اکیلے ٹیچر کو ہی کرنا پڑتے ہیں: ''ایک مرتبہ پانچویں کے امتحان میں ایک مضمون آیا کہ میں صبح آئینہ دیکھ کر کیسا محسوس کرتا ہوں۔ بچوں نے رٹے لگا کر روایتی مضمون یاد کیے ہوئے تھے۔ جب انہیں کہا گیا کہ وہ گرائمر اور سپیلنگز کی غلطیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی مرضی کی زبان میں صرف دل کی بات لکھیں تو ہم بچوں کے خیالات جان کر دنگ رہ گئے۔ ایک بچے نے لکھا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں بہت ہی خوبصورت ہوں اور مجھے اعتماد ملتا ہے۔‘‘
Published: undefined
علی انسٹی ٹیوٹ کی مہ جبیں آغا نے بتایا کہ دنیا بھر میں بچوں کی سوچ، کلاس روم کا ماحول اور روزگار کی منڈی کے تقاضے بدل رہے ہیں اس لیے ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہی بچوں کے لیے کتابوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
ماہر تعلیم آمنہ خالد کا کہنا تھا کہ بچوں میں بک ریڈنگ کے مقابلے کروا کر ان میں کتابوں کی محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے نا کہ انہیں زبردستی پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔ ان کے بقول بچوں کو کتابیں پڑھ کر لکھنے کے لیے بھی کہا جائے اور ان کی تحریروں کو ایڈٹ کر کے کہیں چھپوانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ مقررین کے مطابق بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو تلفظ کی غلطیوں کی مسلسل ڈانٹ ڈپٹ برباد کر سکتی ہے، اس لیے اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
اس موقعے پر سویڈن سے بچوں کے ادب کی معروف مصنفہ ایسٹرڈ لنڈگرن کے تخلیق کردہ کریکٹر پیپی لانگ سٹاکنگ کی پچھترویں سالگرہ منائی گئی۔ یہ ایک فرضی کردار ہے جسے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سویڈن کی مصنفہ نے ایک سرخ بالوں والی مضبوط لڑکی کے روپ میں تخلیق کیا تھا۔ لاہور کے لٹریچر فیسٹیول میں پاکستان میں سویڈن کی سفیر انگرڈ جوہانسن نے اس کردار کی تخلیق کے 75 سال مکمل ہونے پر کیک کاٹا۔ اس حوالے سے لگائے گئے ایک سٹال پر پاکستانی بچیوں کے لیے پیپی کا روپ دھار کر تصویر بنوانے، ریڈنگ سیششنز میں حصہ لینے، فیس پینٹنگز کروانے اور آرٹ ورک کرنے کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز