آرٹ انسانی تخلیق ہے اور اس کی تاریخ لگ بھگ اتنی ہی پرانی ہے، جتنا خود انسان۔ پتھروں کے دور میں مختلف غاروں میں انسانی ہاتھوں سے بنی اشکال اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ مگر انسان آرٹ کی طرف کیوں بڑھا؟ اس کی وجہ پیچیدہ ہے اور اس پر مختلف ماہرین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ انسان نے آرٹ کا سہارا اظہار کے لیے لیا جب کہ دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ آرٹ کی طرف انسان کا مائل ہونا بحالت مجبوری تھا یعنی وجہ، ضرورت تھی۔
Published: undefined
معروف شاعر پیرزادہ قاسم کا شعر ہے۔
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
Published: undefined
تخلیق کا وصف قدیمی انسانوں سے لے کر آج تک ہے اور اسے بنیادی انسانی رویہ سمجھا جاتا ہے۔ انسان جہاں جہاں رہا، وہاں آرٹ کسی نہ کسی صورت میں اس کے ساتھ رہا۔ ابتدا میں مختلف تخلیقات کا تعلق رسمی، سماجی اور مذہبی معاملات سے تھا جب کہ اس سے کئی طرح کے کام لیے جاتے تھے، جن میں خیالات کا اظہار، قصہ گوئی، ابلاغ وغیرہ سب شامل ہیں۔ یہی آرٹ کسی گروہ، برادری یا معاشرے کی بنیادی شناخت تک گردانا جاتا رہا ہے۔
Published: undefined
آرٹ عمومی طور پر اپنے سماج کے رویوں، اقدار اور عقائد کا آئینہ دار رہا ہے، جس میں ثقافتی، سماجی اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا رہا ہے۔ نگاہوں کو بھلا لگنے اور شخصی اظہاریے کے علاوہ آرٹ کا ایک اور کام کسی علاقے کو انوکھی شناخت دیتے ہوئے دیگر علاقوں کے افراد اور برادریوں کو متوجہ کرنا بھی ہے۔
Published: undefined
آرٹ کا ایک اور کام مختلف موضوعات پر مکالمت کا آغاز اور حوصلہ افزائی ہے اور ان میں وہ موضوعات بھی شامل ہیں، جن پر عام حالات میں بات نہیں ہو سکتی۔
Published: undefined
آرٹ یا فن کی بنیادی تعریف یا جہت تو کسی حد تک واضح ہے، تاہم ہر فنکار آرٹ کی بابت اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔
Published: undefined
معروف پاکستانی کلاسیکی رقاصہ شیما کرمانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ انسان فن اس لیے تخلیق کرتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے اور اپنے آس پاس موجود جمالیات اور خوبصورتی کو محسوس کر سکے: ''میرے لیے فن ماضی کی یاد، حال کی تشریح اور مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے۔ فنکار معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں، جن کا کام معاشرے کی اقدار کے دھاگے کو سلامت رکھنا ہوتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے فن کو معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کیا، ''میں نے اپنی فنی سرگرمیوں میں ہمیشہ اپنے حاضرین کو سوچنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور انہیں مختلف سوچنے اور معاشرے، رویے، سوچ، سماجی و سیاسی و ثقافتی زندگی میں تبدیلی کی ترغیب دی۔ یعنی تصور یہ تھا کہ ان کے ذہن کو جھنجھوڑا جائے اور اختیار اور اعتبار سونپا جائے کہ وہ آزادی کو محسوس کریں۔‘‘ ان کا کہنا تھا خصوصاﹰ خواتین کے لیے رقص جسمانی مضبوطی اور خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور اس سے جسم اور ذات دونوں کی قوت اور توقیر بڑھتی ہے۔
Published: undefined
معروف پاکستانی مصور شاہد رسام نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''انسان کی پہلی زبان یا نظریہ اظہار، آرٹ ہی تھا۔ جب انسان کوئی زبان نہیں بولتا تھا اور فقط غوں غاں کی شکل میں اپنے جذبے کا اظہار کرتا تھا تو سب سے پہلا ٹھوس اظہاریہ لکیروں کی شکل میں تھا۔ یہی لکیریں پھر پینٹنگز بنتی چلی گئیں۔ غاروں میں موجود اشکال ہی کو لے لیجے وہ ہزاروں برس پرانی ہیں۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا، ''تخلیقی عمل کا پہلا عنصر جمالیات سے شروع کر سوال تک لے جاتا ہے۔ ہم کسی شے کی جمالیات یا سحر سے کسی تخلیق کا آغاز کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد انسانی زندگی کے ادراک و کنار میں موجود چیزوں کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں، ساتھ ہی وہ جہتیں لوگوں کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک عام آدمی دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
Published: undefined
واصل شاہد ایک معروف پاکستانی خطاط ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان فقط ایک مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ شعوری وجود بھی رکھتا ہے اور یہی شعوری وجود اسے بہت سی چیزوں کا ادارک دیتا ہے: ''ہمارا شعوری وجود ہمیں اپنی اصل، اپنے مقصد اور منزل کی تلاش کے لیے مضطرب رکھتا ہے یعنی وہ اس کائنات اور زمان و مکاں میں کیوں ہے؟ اس کے پیدا ہونے اور مرنے کے درپردہ کیا کچھ ہے۔ یہی بنیادی سوالات انسان کو ابتدا سے بے چین رکھے ہوئے ہیں۔ ان سوالات کو جاننے اور پرکھنے کے لیے انسان مختلف تجربات کرتا ہے۔ انہی تجربات میں جمالیات در آتی ہے، تو وہ فن کہلاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined