پچیس فروری کو سینما کی زینت بننے والی یہ فلم محض تیرہ روز میں 100 کروڑ کلب کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کامیابی پر مرکزی کردار عالیہ بھٹ اور پروڈیوسر ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی خوشی سے نہال نظر آتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ سفر کہاں جا کر رکتا ہے۔
Published: undefined
گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی کہانی نوجوان گنگا کے گرد گھومتی ہے۔ بمبئی میں جا کر اداکارہ بننے کا سپنا دیکھنے والی گنگا محض ایک ہزار روپے کے عوض جسم فروشوں کو نیلام کر دی جاتی ہے۔ معمولی سیکس ورکر سے 'بائی‘ اور انڈر ورلڈ ڈان کریم لالہ کی بہن بن کر ریڈ لائٹ ایریا میں اپنی دھاک بٹھانے والی گنگو کی کہانی میں وہ سارا مواد موجود تھا جو کسی بھی 'مصالحہ فلم‘ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
’ہائی وے‘ میں عالیہ کی اداکاری سے متاثر ہونے کے باوجود مجھے گنگوبائی کاٹھیاواڑی دیکھنے کی جلدی نہ تھی۔ یہاں امتیاز علی جیسے حساس ہدایت کار کے بجائے فلم کی باگ ڈور سنجے لیلا بھنسالی کے ہاتھ میں تھی جو اکثر و بیشتر پُرشکوہ سیٹ لگانے اور مکالموں کی بہتات سے اُس شور کو محسوس کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے جو کردار کے اندر برپا ہوتا ہے۔ 'پیار کو گالی دیتی ہے پر اس کی گالی میں بھی پیار ہوتا ہے‘ جیسے کلیشے قسم کے مکالمے فلم کے اندر جو تھے سو تھے لیکن پہلے اس مکالمے کا ذکر ضروری ہے جو بھنسالی کا عالیہ بھٹ کے ساتھ فلم کی مارکیٹنگ کے دوران ہوا اور ہمارے لیے گنگوبائی دیکھنے کی وجہ بنا۔
Published: undefined
موصوف فرماتے ہیں، ”یہ فلم ہندوستانی سینما کے لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں ایسی پرفارمنس دی گئی جو میرے خیال میں اگلے پچاس، سو برس تک یاد کی جائے گی۔ یہ مدر انڈیا میں نرگس، بنڈت کوئین میں سیما بسواس اور صاحب بی بی میں مینا کماری کی ٹکر کی ہے۔ یہ ایسی چوتھی پرفارمنس ہے جس کا میں اسی درجے میں ذکر کروں گا۔ یہاں پوری فلم کا بوجھ ایک لڑکی نے اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے۔"
Published: undefined
اگر پرفارمنس سے مراد 'فیمنسٹ ڈسکورس‘ میں گنگوبائی کی اہمیت ہے تو اتنا دور جانے کی کیا ضرورت تھی۔ گذشتہ دہائی میں ریلیز ہونے والی ودیا بالن کی دی ڈرٹی پکچر، کہانی اور کنگنا رناوت کی کوئین وغیرہ جیسی کسی بھی فلم کا ذکر ہو سکتا تھا۔ لیکن اس سے وہ تاثر کیسے ابھرتا جو مینا کماری اور نرگس کا نام لینے سے تشہیری مہم میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
اگرچہ 'پوری فلم کا بوجھ ایک لڑکی نے اپنے کندھے پر اٹھا رکھا‘ تھا لیکن یہ بوجھ کباڑئیے کی ایسی گٹھڑی تھی جس کے پرزے جڑتے سمے آپس میں فِٹ نہ بیٹھ سکے۔ ہر پرزے کی اپنی کھٹ کھٹ اور اس شور میں وہ 'زیریں صدا‘ کہیں کھو گئی جسے فلم بینوں کی دھڑکن بننا تھا۔ انڈین سینما کی روایت میں زیریں صدا کا انتہائی گہرا تعلق فلم کے گیتوں سے ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے گنگوبائی کے موسیقار بھی سنجے لیلا بھنسالی خود تھے۔
Published: undefined
اگر فلم کا لوکیل آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کا بمبئی ہو تو پہلا خیال ہی یہ آتا ہے کہ فلم جیسی بھی ہو میوزک لاجواب ہو گا۔ ایسی وسیع تر گنجائش کے باوجود فلم کی موسیقی انتہائی واہیات ہے۔ بھنسالی کے لیے کسی بھی موسیقار کی خدمات حاصل کرنا مشکل نہ تھا لیکن ہر فن مولا فلم ساز بننا بھی تو ایک نشہ ہے۔ ایسے تمام نقاد جنہوں نے بحیثیت مجموعی فلم کو سراہا وہ بھی غیر معیاری موسیقی پر سوال اٹھائے بغیر نہ رہ سکے۔
Published: undefined
صاحب بی بی اور غلام میں چھوٹی بہو کا کردار ادا کرتے ہوئے مینا کماری نے ہندوستانی عورت کے دکھ کی محض عکاسی نہیں کی اسے مجسم کر دیا۔ اپنے شوہر کی غیر مشروط غلامی کا دکھ جو بغاوت کے شعلہ میں ڈھل کر رسم و رواج کو راکھ کر دینا چاہتا ہے۔ اس شعلے کی آنچ فلم ریلیز ہونے کے ساٹھ برس بعد 2018 میں بھی محسوس کی گئی جب انڈین سپریم کورٹ نے شوہر کو اپنی بیوی کا مالک قرار دیے جانے کے نوآبادیاتی قوانین اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ کیا 'فیمنسٹ ڈسکورس‘ میں گنگوبائی کاٹھیاواڑی دور دور تک ایسا کوئی امکان رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر پچاس، سو برس بعد کس لیے یاد کی جائے گی؟
Published: undefined
صاحب بی بی اور غلام کے دور رس سماجی اثرات کو بھول کر محض مینا کماری کی اداکاری اور عالیہ بھٹ کی 'پرفارمنس‘ پر غور کیجیے۔ اعلی اداکاری کے اعتبار سے چھوٹی بہو کا کردار محض ٹریجڈی کوئین کے اپنے کیریئر میں ہی نہیں بلکہ انڈین سینما کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔ گنگوبائی کاٹھیاواڑی میں عالیہ بھٹ کی 'پرفارمنس‘ ہائی وے میں ان کی اپنی اداکاری کا عشر عشیر بھی نہیں۔
Published: undefined
ایک سین میں بائی نئے گاہک کی آمد پر گنگو کو صبح سویرے چار بجے بیدار کرتی ہے۔ بالکل ایسا منظر گلزار کی موسم (1975) میں بھی ہے۔ ان دونوں مناظر کے موازنے سے شرمیلا ٹیگور اور عالیہ بھٹ کا نہیں گلزار اور بھنسالی کا فرق واضح ہوتا ہے۔ گنگو اس امید پر کماٹھی پورہ سے باہر نہیں جاتی کہ شاید اس کا محبوب لوٹ آئے۔ بظاہر نہایت مضبوط عورت اندر الاؤ دبائے بیٹھی ہے۔ اظہار کرتی ہے تو مجال ہے کہیں دور دور تک 'ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے جوڑوں یہ کلائی میں‘ ٹائپ ایفیکٹ پیدا ہو۔ گھر کو یاد کرتے ہوئے 'پچھلی گلی میں جانے کیا چھوڑ آئی میں‘ کا تاثر؟ ممکن ہے آپ کہیں یہ گلزار نہیں بھنسالی ہیں۔ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ سو یہ گرو دت بھی نہیں بھنسالی ہیں، مینا کماری نہیں عالیہ بھٹ ہے۔ یہ گنگوبائی کاٹھیاواڑی ہے جو کسی بھی طرح صاحب بی اور غلام کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ سو ایک درجے میں ذکر کا کیا جواز ہے؟ ممکن ہے آپ تشہیری مہم میں ایسی کسی بھی مبالغہ آرائی کو مارکیٹ کا جبر قرار دیں۔ کیا ایسے جبر کا سامنا گرو دت کو صاحب بی بی اور غلام کی نمائش کے وقت نہیں کرنا پڑا تھا؟
Published: undefined
29 جولائی 1962 کو ریلیز ہونے والی یہ فلم ابتدائی طور پر تماشائیوں کی پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ گردو دت نے سینما میں بیٹھ کر فلم دیکھی تو انہیں محسوس ہوا کہ ہیمنت کمار کی آواز میں ایک گیت'ساحل کی طرف‘ فلم کی روانی متاثر کر رہا ہے۔ اسے فلم سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور کے آصف کے گھر جا پہنچے۔ آصف نے فلم کا بنیادی تھیسز تبدیل کرنے اور چند مناظر دوبارہ شوٹ کرنے کا مشورہ دیا۔ ابرار علوی نے مجوزہ حصے از سر نو لکھے اور یہاں تک کہ اگلے دن مینا کماری کو عکس بندی کے لیے بلوا لیا گیا۔ گرو دت کے دل و دماغ میں مارکیٹ کا جبر اور فنکارانہ دیوانگی دست و گریباں تھے۔ گرو دت نے باکس آفس کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور فلم بری طرح پِٹ گئی۔ فلم بینوں کی آنکھ وہ نہ دیکھ سکی جو گرو دت نے دیکھا۔ فلم ساز کا ویژن اگر شائقین سے بڑا نہ ہو تو وہ جتنی مرضی ہے فلمیں دے تاریخ رقم نہیں کر سکتا۔
Published: undefined
1962 میں باکس آفس پر دھوم مچانے والی فلمیں اک مسافر اک حسینہ، بیس سال بعد اور پروفیسر تھیں۔ آج وہ کہاں ہیں؟ پچاس، سو برس تو بہت دور کی بات ہے ذرا میڈیا کا شور تھمنے دیجیے گنگوبائی کاٹھیاواڑی ماضی کی گرد میں دفن ہوتے دیر نہ لگائے گی۔ ہمارے عہد کے 'سب سے بڑے ہدایت کار‘ کی فلم میں تو ڈھنگ کا گیت بھی نہیں جو اس کے لوح مزار کا کام دے سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined