Published: undefined
بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فرد واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔
Published: undefined
بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دوہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دوہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔
Published: undefined
اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔
Published: undefined
قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔
Published: undefined
لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔
Published: undefined
لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کامیاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔
Published: undefined
اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کامیاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔
Published: undefined
یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔
Published: undefined
یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined