پاکستان میں قائم جرمن ثقافتی مرکز گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے یہ پروگرام 2017 میں شروع کیا تھا۔ اب تک اس پروگرام کے تحت دو درجن سے زیادہ فلمسازوں نے 70 کے قریب فلمیں بنائیں جن میں انسانی حقوق، معاشرتی مسائل خصوصاً خواتین کو درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو بھی اجاکر کیا گیا۔
Published: undefined
گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے اس پروگرام کے تحت بننے والی ان فلموں کی نمائش اب کئی عالمی فیسٹیولز میں ہوچکی ہے جن میں امریکا کے شہر سالٹ لیک سٹی کا سن ڈانس فلم فیسٹول، کوپن ہیگن کا بین الاقوامی ڈاکومینٹری فلم فیسٹول، سوئٹزرلینڈ کا لوکارنوفلم فیسٹول، امریکا کا ساؤتھ ایشین فلم فیسٹول، بھارت کے جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹول جیسے نام شامل ہیں۔ کئی فلمیں نمائش کا حصہ بننے کے ساتھ انعامات کے لیے نامزدگی اور ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں۔
Published: undefined
اسکریننگ پروگرام میں کل نو فلمیں پیش کی گئی جو تمام کسی نہ کسی بین الاقوامی نمائش کا حصہ بن چکی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس پروگرام کے سربراہ جرمن فلم میکر ٹل پاسو نے بتایا کہ یہ پروگرام گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے ساتھ فلم میکنگ کے ورکشاپ سے شروع کیا تھا، اس دوران انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں سنجیدہ فلم سازی کی تعلیم کا فقدان ہے، اس لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا۔
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس میں وہ نوجوان فلمسازوں کو مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ساتھ ہی ہر قسم کی تکنیکی مدد بھی کی جاتی ہے تاکہ ان موضوعات پر بھی کام ہوسکے جن سے مقامی اورعلاقئی کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے افراد بھی تعلق جوڑ سکیں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ وہ اس پروگرام کی کامیابی سے بہت مطمئن ہیں کیونکہ ان کی فلمیں دنیا کے مشہور فلمی میلوں میں پیش کی جاچکی ہیں اور کچھ نے تو ایوارڈز بھی جیتے ہیں۔
Published: undefined
ٹل پاسو کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ تھا، یہ نوجوان ایک مرتبہ اپنا آئیڈیا منظور ہونے کے بعد اطمینان اور آزادی کے ساتھ کام کرتے رہے البتہ سب سے بڑا چیلنج کورونا کی وباء کے دوران، جب تمام ورکشاپس آن لائن کروانے ہوتے تھے، کچھ مشکلات ضرور درپیش آئی تھیں۔
Published: undefined
اس پروگرام میں افغانستان کے شامل ہونے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے نوجوان ورکشاپس کے لیے پاکستان آئے اور آئیڈیا منظور ہونے کے بعد واپس جاکر ان پر کام کیا اور دوبارہ پاکستان آکر اس پر ہمارے ساتھ مزید کام کیا۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی اس پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور تیسرے سیزن کے انعقاد کے لیے ان کے پاس کئی نئے آئیڈیا بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا پروگرام میں ورکشاپس منعقد کروانے اور دیگر بڑھتے ہوئے اخراجات کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس میں مالی مدد کے لیے آگے آئیں۔
Published: undefined
فلم ٹیلنٹ کی مرکزی رابطہ کار زویا احمد نے اس ضمن میں بتایا کہ اس پروگرام کا مقصد نوجوان فلم سازوں کو ایک پلیٹ فارم کے ساتھ انہیں ابتدائی فنڈنگ فراہم کرنا تھا تاکہ ایسے موضوعات پر کام کیا جاسکے جن پر عام طور پر لوگ پیسہ خرچ کرنے اور بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ زویا کے مطابق پہلے دو پروگراموں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ان کا فیصلہ ہے کہ تیسرے حصے کا آغاز بھی جلد ہی کردیا جائے۔
Published: undefined
زویا نے مزید بتایا کہ پروگرام شروع کرنے کا ارادہ کرنے بعد ہم اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اطلاع دیتے ہیں۔ اس پروگرام میں زیادہ تر نوجوان فلم میکر ہی درخواست بھیجتے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی تھے جن کا فلم میکنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن ان کی کہانی کا خیال اتنا مضبوط اور اچھوتا تھا اس لیے ان کو بھی شامل کرلیا گیا۔ ان آئیڈیاز کو جمع کرنے کے بعد پاکستان اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر مشتمل ایک جیوری تشکیل دی جاتی ہے جو حتمی فیصلہ کرتی ہے کہ کن خاکوں پر مزید کام کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
فلم ٹیلنٹ پروگرام میں شامل نوجوان فلم ساز راہول اعجاز جن کی فلم 'اے ٹرین کراسس دی ڈیزرٹ' دنیا کے چھہ ممالک کے دس فیسٹولز میں پیش کی جاچکی ہے کا کہنا تھا کہ وہ دو سال تک اس پروگرام سے منسلک رہے ہیں اور آج ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد ایسا لگ رہا کہ انہوں نے کوئی ڈگری حاصل کرلی جہاں سے وہ بہت کچھ سیکھ کر نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ اپنے طور پر مزید فلمیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Published: undefined
راہول کا نام 2019 میں پاکستان اور افغانستان سے شامل کیے جانے والے 15 فلم سازوں میں شامل کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے فلم سازوں کی مدد کے لیے اس سے اچھا پروگرام ابھی تک نہیں دیکھا جہاں آپ نہ صرف آزادی کے ساتھ اپنے آئیڈیاز پر کام کرسکتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ان کو حتمی شکل دینے کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز