اس دوران تجرباتی بنیادوں پر کل دس ہفتوں تک آپ ہماری ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر شہرہ آفاق جرمن ادیب فرانز کافکا کی دس بہت معروف تماثیل کے جرمن زبان سے براہ راست اردو میں تراجم سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ ابتدائی طور پر یہ سلسلہ صرف فرانز کافکا کی تماثیل تک محدود رکھا جائے گا اور آپ ہر ہفتے کافکا کی ایک مختلف تصنیف اردو میں پڑھ سکیں گے۔ اس بارے میں آپ کی طرف سے تعریفی یا تنقیدی کسی بھی طرح کی رائے کا اظہار ہمیں اپنی اس کاوش کی کامیابی کا اندازہ لگانے میں مدد دے گا، جس کے لیے ڈی ڈبلیو شعبہ اردو آپ کا شکر گزار بھی ہو گا۔
Published: undefined
Published: undefined
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
Published: undefined
قانون کے آگے ایک چوبدار کھڑا تھا۔ اس محافظ تک پہنچ کر ایک دیہاتی نے اس سے درخواست کی کہ اسے قانون میں داخلے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن چوبدار نے کہا کہ وہ اسے اس وقت تو داخلے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
Published: undefined
دیہاتی کچھ دیر تو سوچتا رہا اور پھر اس نے پوچھا کہ آیا اسے بعد میں داخلے کی اجازت مل سکتی ہے؟ ’’یہ ممکن ہے،‘‘ دروازے پر کھڑے محافظ نے کہا، ’’لیکن اس وقت نہیں۔‘‘
Published: undefined
قانون کا دروازہ چونکہ ہمیشہ کی طرح کھلا تھا اور محافظ دوبارہ دروازے کے ایک طرف جا کر کھڑا ہو چکا تھا، اس لیے دیہاتی نے تھوڑا سا آگے کو جھک کر دروازے میں سے جھانکتے ہوئے اندر کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ دربان نے یہ دیکھا تو ہنسا اور بولا، ’’اگر تمہارے لیے اس میں اتنی ہی کشش ہے تو میرے منع کرنے کے باوجود اندر جانے کی کوشش بھی کر ہی لو۔ لیکن یاد رکھنا: میں بہت طاقت ور ہوں۔ اور میں تو سب سے باہر والا محافظ ہوں۔ اندر ایک کے بعد ایک بڑے بڑے ہال ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سے ایک طاقت ور دربان کھڑا ہے۔ ان میں سے تو صرف تیسرا ہی محافظ ایسا تھا کہ خود میں بھی اسے دیکھنے تک کا متحمل نہیں ہو سکا تھا۔‘‘
Published: undefined
دیہی علاقے سے آنے والے آدمی کو تو ایسی مشکلات کی کوئی توقع ہی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ قانون تک رسائی تو ہر کسی کے لیے ہر وقت ممکن ہونا چاہیے۔ لیکن پھر جب اس نے کسی جانور کی کھال کا بنا اوورکوٹ پہنے ہوئے محافظ کو غور سے دیکھا، اس کی بڑی، نوکیلی ناک اور اس کی لمبی، باریک، سیاہ تاتاری داڑھی پر غور کیا، تو اس نے فیصلہ یہ کیا کہ وہ اس وقت تک انتظار ہی کر لے گا جب تک کہ اسے داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔
Published: undefined
محافظ نے اسے چار ٹانگوں والا لکڑی کا ایک سٹول لا دیا اور ساتھ ہی اسے یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ دورازے کے قریب ہی لیکن ایک طرف ہو کر سٹول پر بیٹھ جائے۔ دیہاتی وہاں کئی دن، مہینے اور سال بیٹھا رہا۔
Published: undefined
اس نے کئی بار کوشش کی کہ اسے اندر جانے دیا جائے۔ اس نے دربان کی منتیں کر کر کے بھی اسے تھکا مارا۔ دربان اکثر اس سے چھوٹے چھوٹے سرسری سوال پوچھتا، کبھی اس کے آبائی علاقے کے بارے میں تو کبھی کئی طرح کے دوسرے معمولی سوال۔ لیکن فاصلوں کے مظہر اور ذاتی دلچسپی سے عاری یہ سب سوال ایسے ہوتے جیسے بڑے مالک یا آقا پوچھتے ہیں۔ آخر میں وہ اس دیہاتی کو ہر بار یہی کہتا کہ وہ اسے ابھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
Published: undefined
دیہاتی اپنے اس سفر کے لیے کافی کچھ ساتھ لایا تھا۔ اس نے سبھی کچھ استعمال کر کے دیکھ لیا، چاہے وہ جتنا بھی قیمتی تھا، کہ کسی طرح محافظ کو رشوت دے کر ہی آمادہ کر لے۔ دربان نے یہ سب کچھ لے بھی لیا، لیکن ہر بار ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتا، ’’میں یہ صرف اس لیے لے رہا ہوں کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تم نے اپنی کوشش میں کوئی کسر چھوڑ دی تھی۔‘‘
Published: undefined
ان کئی برسوں میں یہ شخص اس محافظ کا تقریباً بغیر کسی وقفے کے مشاہدہ کرتا رہا تھا۔ اسے باقی سب محافظ بھول گئے تھے۔ اسے یہ پہلا محافظ ہی قانون میں اپنے داخلے کی راہ میں واحد رکاوٹ نظر آتا تھا۔ وہ اس ناخوشگوار اتفاق کو شروع کے برسوں میں بڑی لاپرواہی سے اور کافی اونچی آواز میں کوستا اور گالیاں دیتا رہتا۔ بعد کے برسوں میں جب وہ بوڑھا ہو گیا، تو بس ہلکی آواز میں بڑبڑاتا ہی رہتا۔
Published: undefined
وہ چھوٹے بچوں جیسا ہو گیا تھا۔ محافظ کے سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے دوران وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ دربان کے کسی جانور کی کھال کے بنے اوورکوٹ کے کالر میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ ان جوؤں سے بھی درخواست کرتا کہ وہ اس کی مدد کرتے ہوئے کوشش کریں کہ محافظ اپنی رائے بدل دے۔
Published: undefined
بالآخر اس کی آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ گئی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ آیا واقعی اس کے ارد گرد اندھیرا زیادہ ہو گیا تھا یا اس کی آنکھیں محض اسے دھوکا دے رہی تھیں۔ لیکن اتنا تو ہو گیا تھا کہ وہ اب اندھیرے میں بھی اس چمک کو پہچان لیتا تھا، جو قانون کے دروازے سے اس طرح پھوٹتی کہ اس کا ماند پڑ جانا ممکن ہی نہیں تھا۔
Published: undefined
اب تو وہ دیہاتی زندہ بھی نہیں رہا۔ اس کی موت سے پہلے اس پورے عرصے کے دوران ہونے والے تمام تجربات اس کے ذہن میں جمع ہو کر ایک ایسا سوال بن گئے تھے، جو اس نے قانون کے دربان سے آج تک کبھی پوچھا ہی نہیں تھا۔
Published: undefined
اس کا جسم اکڑتا جا رہا تھا، جسے وہ سیدھا رکھنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ اس نے محافظ کو ہاتھ سے اشارہ کیا تو اسے دیہاتی کے قریب آ کر بہت نیچے تک جھکنا پڑا تھا۔ دونوں کے قد میں اب بہت زیادہ فرق کا نقصان تو دیہاتی ہی کو ہوا تھا۔ ’’اب کیا جاننا چاہتے ہوں تم؟‘‘ دربان نے بیزاری سے پوچھا، ’’تمہاری تو (سوالوں کی) بھوک کبھی ختم ہوتی ہی نہیں۔‘‘
Published: undefined
’’ہر کوئی ظاہر ہے قانون تک رسائی چاہتا ہے،‘‘ دیہاتی نے کہا تھا، ’’پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے برسوں میں میرے سوا کسی نے اندر جانے کی اجازت ہی نہیں مانگی؟‘‘ محافظ تب جان گیا تھا کہ وہ آدمی اپنے انجام کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
Published: undefined
وہ دیہاتی کی ختم ہوتی ہوئی سماعت تک پہنچنے کے لیے دھاڑتے ہوئے بولا تھا، ’’یہاں تو کسی اور کو داخلے کی اجازت مل ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ دروازہ تو تھا ہی صرف تمہارے لیے۔ میں جاتا ہوں اب، اسے بند کرنے کے لیے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined