اس قدیمی تاریخی نادر شے کی دریافت اسکاٹ لینڈ کی آبرڈین یونیورسٹی کے دستاویزات کے انبار کے نیچے سے ہوئی۔ اس کو ڈھونڈنے والی خاتون اسسٹنٹ کیورٹر کا نام عبیر الدانی ہے۔ یہ ایک لکڑی کا ٹکڑا ہے جو سگار کے باکس میں رکھا ہوا تھا۔ سگار کے اس چھوٹے سے صندوق پر مصر کا جھنڈا بھی لپٹا ہوا تھا۔ خاتون کو یہ ٹکڑا اس وقت ملا جب وہ یونیورسٹی کے ایشیا سیکشن میں رکھی ہوئی بے شمار دستاویزات کے انبار کو ترتیب دے رہی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
آبرڈین ہونیورسٹی میں کام کرنے والی خاتون اسسٹنٹ عبیر الدانی کا تعلق مصر سے ہے۔ اس دریافت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ''جب میں نے اس نادر نمونے کو دیکھا تو اس پر درج نمبر سے میں نے اسے فوری طور پر پہچان لیا‘‘۔ الدانی کے مطابق قدیمی مصری دور کا یہ نمونہ غلط مقام پر غلط دستاویزات کے مجموعے میں دھرا ہوا تھا اور اس کی گمشدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
عبیر الدانی پیشہ ور ماہرِ آثار قدیمہ ہیں اور قدیمی مصری تہذیب کے مختلف مقامات پر ہونے والی کھدائی میں بھی شریک رہی ہیں۔ الدانی نے اس پر حیرانی ظاہر کی کہ یہ ایک اہم شے اسکاٹ لینڈ کے شمال مشرق میں واقع یونیورسٹی کے کسی کمرے سے بھی مل سکتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
جو قدیمی نمونہ ملا ہے وہ پانچ انچ (12.7 سینٹی میٹر) کا ہے اور اس کی لکڑی سدابہار درخت صنوبر کی ہے۔ اس طرح کے تین ٹکڑے سب سے بڑے اہرام میں بنائے ہوئے ملکہ کے علاقے یا چیمبر میں سے ملے تھے۔ یہ عظیم اہرام مصر کے تیسرے بڑے شہر الجیزہ میں واقع ہے۔
Published: undefined
اس اہرام کو خوفو کا اہرام بھی کہا جاتا ہے۔ اس اہرام کی دریافت سن 1872 میں ہوئی تھی۔ اس ٹکڑے کے ساتھ ایک گیند اور چیزیں لٹکانے والی تانبے کی ایک ہُک بھی ملی تھی۔ اس وقت صنوبر کی لکڑی کے ٹکڑے کو انجینیئر وے مین ڈکسن نے تلاش کیا تھا۔ اس نے یہ ٹکڑا ڈاکٹر جیمز گرانٹ کے حوالے کر دیا تھا۔ گرانٹ سن 1860 میں مصر میں ہیضے کی وبا کے علاج کے لیے گئے تھے۔
Published: undefined
Published: undefined
صنوبری لکڑی سے بنایا گیا قدیمی نمونہ بعد ازاں یونیورسٹی کو تحفہ کر دیا گیا تھا۔ عبیر الدانی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ستر برسوں سے اس ٹکڑے کی تلاش جاری تھی۔ اس وقت یہ نادر نمونہ کئی ٹکڑوں میں بَٹ چکا ہے۔ اس کے بنانے کی تاریخ 3341 قبل از مسیح ہے۔ یہ خوفو کے اہرام اعظم سے بھی پانچ سو سال پرانا ہے۔ یہ کل تین ٹکڑے تھے اور ان کو 'ڈکسن ریلکس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے ایک مرتبہ پھر ڈکسن ریلکس میں دلچسپی بڑھ جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined