پاکستان میں بننے والی عرفات مظہرکی 14 منٹ کے مختصر دورانیے کی اینی میٹڈ فلم 'سوائپ‘ کو چوتھے' اینیمافلم انٹرنیشنل اینیمیشن فیسٹیول‘ میں خصوصی جیوری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
Published: undefined
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی اینیمیٹد فلم کو یہ اعزاز ملا ہو۔ اس سے قبل رواں برس مارچ میں 'سوائپ‘ نے اینیکی انٹرنیشنل انیمیشن فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی فلم کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
Published: undefined
عرفات مظہر کا کہنا تھا کہ اینیما فلم فیسٹیول، اینی میشن کی دنیا کا ایک طرح سے آسکر ہے۔ وہ کہتے ہیں ،''ہماری فلم کا وہاں منتخب ہونا ہی ایک بہت بڑا اعزاز تھا، کہ اب ایوارڈ بھی مل گیا ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی فلم فیسٹیول میں وہ اس لیے نہیں گئے کیونکہ ان کی شرط یہ ہوتی تھی کہ یہ فلم اپنے ملک میں نہ دکھائی گئی ہو جبکہ وہ اسے عام لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
مکمل طور پر ہاتھ سے بنائی گئی یہ اینیمیٹڈ فلم گزشتہ سال نومبر میں یوٹیوب پر ریلیز کی گئی تھی جس کے ہدایتکار عرفات مظہر ہیں اور یہ ان کی زندگی کی دوسری ایسی فلم ہے۔ اس فلم کے بارے میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 'سوائپ‘ ٹیکنالوجی تک ضرورت سے زیادہ رسائی کے نتیجے میں جنم لینے والی انتہا پسندی کوبیان کرتی ہے۔
Published: undefined
’سوائپ‘ کی کہانی ایک کم عمر لڑکے کے گرد گھومتی ہے جوسوشل میڈ یا پر ‘ آئی فتویٰ' نامی ایپ کا عادی ہے۔ اس ایپ کے تحت صارفین کو ایسے افراد کے خلاف ووٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن پرتوہین مذہب کا الزام ہو، ایپ پر 10 ہزار سوائپس کی صورت میں ملزم کو سرعام سزائے موت دی جاتی ہے۔
Published: undefined
’آئی فتوٰی‘ کے بارے میں عرفات مظہر کا کہنا ہے کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ انٹرنیٹ پر آسانی سے ہراساں کرنے لگتے ہیں، لوگ کسی بھی شخص کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو اگر وہ ان کے سامنے ہو تو شاید نہیں کریں۔
Published: undefined
ان کا کہنا تھا،'' ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ کسی پر بھی الزام لگادیا جائے تو سب اس کے خلاف نکل پڑتے ہیں، چاہے خود ان کے اپنے علماء انہیں روک رہے ہوں۔ 'تو یہ جو فتوٰی کلچر بنادیا گیا ہے اس کی وجہ سے یہ 'ڈارک ہیومر‘یا ’سیاہ مزاح‘ کا تصور آیا کہ چلو ایک ایپ ہی بنادو تاکہ عوام الناس سے پوچھ کر سزا دے دی جائے۔‘‘
Published: undefined
سوائپ کو یوٹیوب میں مفت رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ اس کہانی کو پاکستان میں رہنے والے افراد کے لیے لکھا گیا ہے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ مظہر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں غیرت اور عشق کے نام پر جبر اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اورغیرت مند ہونے کی تعریف عجیب ہے، یعنی جبر کرنا اور تشدد کی راہ اپنانا۔
Published: undefined
مظہر نے کہا '' تشدد کی یہ سوچ اب بچوں میں بھی پروان چڑھنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بچے اور نوجوان نسل سڑکوں پر تشدد کا اظہار کھل کر کررہی ہیں تو ہمیں اس جانب دیکھنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
عرفات مظہر نے بتایا کہ ہاتھ سے تصاویر بناکر اینی میشن تیار کرنا ایک بہت ہی طویل عمل ہے اور اس مختصر سی فلم کو بنانے میں بھی سال لگ گیا، کیونکہ انہوں نے کمپیوٹر یا تھری ڈی استعمال نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دنیا کا تصورہمارے ذہن میں ہوتا ہے وہ کاغذ پر ہاتھ سے بناکر ہی سب سے اچھے طریقے سے پیش کی جاسکتی تھی۔'' اس طرح ہم رنگ و روشنی سے کھیل سکتے ہیں جس سے کہانی کو تہہ در تہہ دکھا سکتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہاتھ سے بنائی گئی تصاویر کے ذریعے اینی میشن بنانے کے فن کا مستقبل کافی روشن ہے جس سے معیشت کو بہت فائدہ ہوگا اس لیے وہ اپنے ادارے میں ایک اسکول کا قیام بھی عمل میں لارہے ہیں تاکہ نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
Published: undefined
عرفات مظہر پف بال اسٹوڈیو کے بانی ہیں، جس کا مقصد پاکستان میں ڈیجیٹل کہانی سنانے کی روایت کو وسعت دینا، اسے آگے بڑھانا اور ناظرین کو ڈیجیٹل کی معلومات سمیت سوشل میڈیا پر رپورٹنگ سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے اوریجنل اردو مواد تیارکرنا ہے۔ (کوکب جہاں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined