گزشتہ ہفتہ اسرائیل فلسطین تنازعہ میں کھل کر فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے چین نے ایک بڑا اور دورس نتائج کا حامل قدم اٹھایا اس نے فلسطین کی آزادی کی جدو جہد کرنے والی سبھی چھوٹی بڑی تنظیموں کے سربراہوں کی بیجنگ میں ایک اجلاس طلب کیا جہاں ان سبھی نے فلسطین کی آزادی کی جنگ ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کر کے لڑنے کا عہد کیا۔ اس طرح چین ایران روس شمالی کوریا اور فلسطین پر مشتمل ایک مضبوط محاذ اسرائیل کے خلاف بنتا دکھائی دے رہا ہے دوسری جانب امریکہ برطانیہ اسرائیل اور دیگر عرب ملک ہو سکتے ہیں کیونکہ بدنصیبی سے عرب حکمرانوں کی اولین تشویش خطہ میں ایران کا بڑھتا اثر ہے قبلہ اول کی آزادی فلسطینیوں سے انصاف اور ان کے حقوق کی بازیابی نہیں -مگر کیا چین اس حد تک فلسطینیوں کی مدد کو جا سکتا ہے جس حد تک امریکہ اسرائیل کی حمایت میں جاتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو مغربی ایشیا تیسری جنگ عظیم نہیں لیکن عالمی چپقلش کا مرکز ضرور بن جائے گا۔
Published: undefined
ادھر، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر گئے ہیں جہاں انہوں نے امریکی کانگریس کو چوتھی بار خطاب کیا لیکن ان کو وہاں نہ صرف عوام بلکہ کانگریس اور سینیٹ کے ممبروں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ایوان میں ان کا خطاب شروع ہوتے ہے حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران نے واک آؤٹ کر دیا اور اور ایوان کے باہر ہزاروں لوگ فلسطین کا پرچم لے کر انکے خلاف نعرے لگا رہے تھے جن کو بڑی دیدہ دلیری اور تکبر سے نیتن یاہو نے پاگل (ایڈیکٹ) قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری میں خاص کر یورپ اور امریکہ میں فلسطین کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں وعدہ خلافیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اب انسانیت نواز انصاف پسند عناصر اسرائیل سے چڑھنے لگے ہیں مضبوط یہودی لابی کی وجہ سے امریکی حکمران اسرائیل کی حمایت کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں مگر عوام کی ناراضگی کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ رشی سنک اور بائیڈن کے ساتھ ہوا ہے۔
Published: undefined
فلسطین کے مسئلہ کو لے کر ساری دنیا میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ پر قریب نو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کے شہید ہونے کی اطلاعات پوری انسانیت کو بے چین کر رہی ہے لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکہ کے صدر بائیڈن کی انسانی خون کی پیاس بجھنے کا نام لے رہی ہے ادھر فلسطینی بھی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں قربانی پر قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں لیکن جھکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں غزہ کو اسرائیل نے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اسپتال سڑکیں اسکول بجلی پانی کا نظام سب درہم برہم ہو چکا ہے ریڈ کراس کو راحت رسانی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اسرائیل ابھی تک اپنا مقصد نہیں حاصل کر سکا ہے یہاں تک کہ نو ماہ قبل حماس کے جنگجوؤں نے جن اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا انہیں بھی نہیں رہا کرا سکا ہے پھر اس بہیمانہ انسانیت سوز فوجی کارروائی سے اس نے کیا حاصل کیا اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح نسل کشی کر کے وہ فلسطینیوں کا وجود ختم کر دے گا تو اسے ہٹلر سے سبق لینا چاہئے جس نے انھیں کے ساٹھ لاکھ لوگوں کو تو مروا دیا لیکن کیا وہ یہودی نسل ختم کر پایا اسی طرح حماس اگر محض ایک تنظیم ہوتا تو شا ید اس کا قلع قمع کر دیا جاتا لیکن حماس ایک تحریک ہے اور تحریکیں ختم نہیں کی جا سکتیں۔
Published: undefined
اسرائیل کے مظالم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے لئے ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے خود ان ملکوں میں فلسطینیوں کو زبردست حمایت مل رہے ہے جہاں کی حکومتیں اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں امریکہ برطانیہ کینیڈا جرمنی سمیت دنیا خاص کر یورپ کے ہر ملک میں روز اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں یہ اسرائیل کی اندھی حمایت کا ہی شاخسانہ ہے کہ برطانیہ میں رشی سنک کی کرسی چلی گئی اور امریکہ میں بائیڈن اپنی ہی پارٹی کی صدارتی ریس ہار گئے اور انکی جگہ پارٹی نے نائب صدر کملا ہیرس کو اپنا صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پارٹی دیکھ رہی تھی کہ انکی اندھی اسرائیل نوازی کی وجہ سے عام امریکی ان سے سخت متنفر ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ بائیڈن کو بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اگر انہیں صدارتی امیدوار بنا دیا گیا تو شرمناک شکست انکا مقدر ہوگی جرمنی میں بائیں بازو کے اتحاد کی کامیابی سابقہ دائیں بازو کی حکومت کی اسرائیل نوازی کی وجہ سے ممکن ہو سکی -مگر عرب اور مسلم ملکوں میں حسب دستور قبرستان جیسا سناٹا ہے لگتا ہی نہیں کہ انکے پڑوس میں لاشوں کا جو ڈھیر پڑا ہوا ہے اس کی بدبو انکے ناکوں تک نہیں جا رہی ہے -عرب حکمرانوں کی اپنی اپنی مصلحت ہے اور عرب عوام کی مجبوریاں ہیں کہ وہ بیچارے یورپیوں کی طرح فلسطینیوں کے اس قتل عام اور نسل کشی پر احتجاج تک نہیں کر سکتے -تاریخ کے کسی دور میں عربوں نے ایسی بزدلی بے حمیتی اور بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے کر رہے ہیں 1975 تک وہ کم سے کم اسرائیل سے لڑتے تو تھے مارتے بھی تھے مار کھاتے بھی تھے لیکن بزدلی اور بے حمیتی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اب تو لگتا ہے جیسے عرب ماؤں نے صلاح الدین ایوبی کو چھوڑئیے ناصر عرفات اور فیصل کو بھی جنم دینا بند کر دیا ہے۔
Published: undefined
دراصل سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد عالمی منظر نامہ یکسر بدل گیا تھا طویل عرصہ تک دنیا یک قطبی رہی صرف امریکہ کی طوطی بول رہی تھی ان حالات میں سبھی ملکوں نے خاص کر جو ناوابستہ تھے یا جن کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا ان سب نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کر لیں مثال کے طور فلسطین کی ابتدائی دنوں سے ہی حمایت کرنے والے ہندوستان نے اسرائیل سے مکمل دوری بنا رکھی تھی لیکن نئے عالمی تقاضوں کے تحت اس نے بھی اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال کر لئے- مصر اور اردن جو کبھی اسرائیل کے خلاف صف اول کے لڑنے والے تھے وہ اور بھی کئی عرب ملک تو امریکہ اور اسرائیل کی گود میں ہی بیٹھ گئے جن عرب اور مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی رشتہ نہیں بھی قائم کیا وہ بھی اسرائیل کے تئیں نرم ہو گئے -اسلامی انقلاب کے بعد ایران جو شہنشاہ کے دور میں اسرائیل کا قریبی دوست تھا اس کا دشمن نمبر ایک بن گیا اور آج فلسطینی مزاحمت کو سب سے زیادہ حمایت ایران سے ہی مل رہی ہے جس کی وجہ سے ایران پوری دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہے اور عرب حکمرانوں سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو سخت شکایتیں ہیں جو نفرت کی جد تک پہنچ رہی ہیں کیونکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ان کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔
Published: undefined
لیکن عالمی منظر نامہ کبھی جامد تو رہتا نہیں ہے حالات بدلتے رہتے ہیں پہلے یورپی یونین کی تشکیل ہوئی جس نے امریکہ کی معاشی برتری کو چیلنج کیا یہاں تک کہ ڈالر کے مقابلہ یورو زیادہ مضبوط کرنسی بن گیا پھر پوتن کی قیادت میں روس نے بھی کروٹ بدلی اور عالمی معاملات میں اس نے بھی دخل اندازی شروع کر دی یہاں تک کہ جب امریکہ نے ناٹو کی توسیع کرنے اور روس کی گردن پر ہاتھ رکھنے کے لئے یوکرین کو اس میں شامل کرنا چاہا تو پوتن نے یوکرین پر حملہ ہی کر دیا یوکرین کا الزام ہے کہ پوتن آرمینیا کی طرح یوکرین کو بھی روس کا ایک صوبہ بنانا چاہتے تھے تو اس لئے اس نے اپنی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ناٹو میں شامل ہونا ضروری سمجھا جبکہ پوتن کا الزام ہے کہ امریکہ روس کی گردن پر ہاتھ رکھنے کے لئے یوکرین کو استعمال کر رہا ہے اور اپنی دفاع میں روس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ناٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھے -یوکرین اور روس دونوں کے اپنے اپنے دعوے ہیں اور دونوں میں دم ہے لیکن اس جنگ میں دونوں ملکوں کے عوام پس رہے ہیں اور عالمی معیشت پر اس کے بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں -ادھر دہائیوں تک آہنی پردہ میں رہنے والا چین بھی عالمی معاملات میں دلچسپی لینے لگا ہے دنیا کے سبھی ملکوں میں اس نے سرمایہ کاری بڑھا دی ہے اور اس کا مال ہر ملک کی ضرورت بن گیا ہے - روس اس کا فطری حلیف ا امریکہ دائمی دشمن ہے اس لئے روس اور چین مل کر عالمی معاملات میں امریکہ کو قدم قدم پر چیلنج کر رہے ہیں ان کے ساتھ شمالی کوریا بھی شامل ہو گیا ہے اس مثلث نے فلسطین کے معاملہ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دیا ہے اس طرح اب فلسطین کو ایران روس چین اور شمالی کوریا کی مضبوط حمایت حاصل ہو رہی ہے جو امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لئے ایک بد شگون ثابت ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined