اب جبکہ ملک میں 18 ویں لوک سبھا انتخابات کا شیڈیول جاری ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے انتخابی شیڈیول کے مطابق لوک سبھا انتخابات 7 مراحل پر مشتمل ہوں گے ۔اس کے ساتھ ہی چار ریاستوں میں اسمبلی کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ گذشتہ کئی روز سے توقع کی جا رہی تھی کہ انتخابی شیڈول کسی بھی وقت جاری کیا جاسکتا ہے تاہم عین وقت پر ایک الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کی وجہ سے شیڈول کی اجرائی میں تاخیر ہوئی ۔ اب جبکہ شیڈول کی اجرائی عمل میں لائی جاچکی ہے تو سارے ملک میں انتخابی سرگرمیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے نمائندے اب ہر طرف ہاتھ جوڑتے اور بلند بانگ دعوے کرتے نظر آئیں گے۔
Published: undefined
ان حالات میں ایک بات پر خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ جس طرح کی سیاسی شعبدہ بازیاں ہمارے ملک میں کی جاتی ہیں ان کی مثالیں کسی اور ملک میں شائد ہی مل پائیں۔ حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے عوام سیاسی شعور اور بصیرت رکھنے کے باوجود اس طرح کی شعبدہ بازی اور جذباتیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بار جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض جذباتیت کا شکار ہونے یا کسی کے دام میں پھنسنے کی بجائے سمجھ بوجھ اور فہم و فراست سے کام لیں کیونکہ چند ماہ کے لیے ہی صحیح حکومت کی چودھراہٹ ختم ہوگئی ہے،یہ ووٹروں کی بادشاہت کا وقت ہے۔
Published: undefined
آج ملک میں کئی طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کہیں اپوزیشن کا صفایا کردینے کی بات ہو رہی ہے تو کہیں عوامی حقوق چھین لئے جانے کی بات ہو رہی ہے تو کسی کو یہ اندیشے ہیں کہ ملک میں آئندہ انتخابات ہی نہیں کروائے جائیں گے۔ کہیں سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو پھر ملک میں دستور ہی تبدیل کردیا جائے گا۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال کہی جا سکتی ہے۔ ملک میں جمہوریت ہے اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کو اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔ کسی بھی جماعت یا کسی بھی لیڈر کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ ملک کے دستور کو تبدیل کرنے کی بات کرے۔
Published: undefined
انتخابی طبلہ جنگ بجنے کے ساتھ ہی یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ اس بار بھی ملک کی 543 پارلیمانی نشستوں کے لیے سات مرحلوں میں ووٹنگ ہوگی۔ انتخابات 19 اپریل سے شروع ہو کر یکم جون تک جاری رہیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔ ایسے میں بی جے پی، کانگریس سمیت دیگر علاقائی پارٹیاں مختلف مسائل پر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بار عام انتخابات میں کون سے مسائل بحث کا مرکز ہوں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی رام مندر اور شہریت ترمیمی قانون جیسے مسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ اپوزیشن مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال سمیت کئی مسائل پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کرے گا۔
Published: undefined
ایودھیا میں رام مندر پران پرتشٹھا کو بی جے پی کی ہندوتوا کی کشتی کے لئے جیون دان سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی سیاست اسی طرح کی دیگر ’وجوہات‘ سے بھی چلتی ہے۔ ایسی صورتحال میں مندر کے ساتھ ہی شہریت ترمیمی قانون، گیانواپی مسجد کے اندر پوجا کی اجازت، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، ’ثقافتی احیائ‘ کے بارے میں عام تنازع جیسی کئی چیزوں کو بی جے پی اپنے حق میں مان کر چل رہی ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ ہندو حمایت اپوزیشن کے ذات پات کی مردم شماری پراٹھے وبال پر کہیں زیادہ بھاری پڑے گی۔ یاد رہے کہ رام مندر پران پرتشٹھا کے طریقے اور وقت پر کافی اعتراض سامنے آئے تھے مگر انہیں نظر انداز کر دیا کیونکہ مودی نے اسے انتخابات کے پیش نظر اپنی ذاتی ساکھ کا مسئلہ بنا لیا تھا۔
Published: undefined
اسی طرح ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ دیگر کئی حلقوں سے سخت اعتراض اور مخالفت کے باوجود سی اے اے قوانین کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس پر وبال جاری ہے لیکن بنگال کے سرحدی علاقوں اور آسام کے کچھ حصوں سے باہر ہونے والے انتخابات پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ یہ وقت بتائے گا۔ آسام میں آسامی بولنے والے ناراض ہیں، دوسری جگہوں پر سی اے اے کا اثر اس بات پر منحصر ہوگا کہ بی جے پی اسے ہندو جذبات کو فروغ دینے کے لیے کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔ وہیں اپوزیشن پولرائزیشن کی بات کرنے کے لئے کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اپوزیشن کے سامنے برسراقتدار پارٹی کا کام مشکل ہے۔ کیونکہ موجودہ وقت میں پریشان عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔
Published: undefined
ان حالات میں تفتیشی ایجنسیوں کی شبیہ داو پر ہے، مرکزی جانچ ایجنسیوں کی کارکردگی پراس سے پہلے کبھی اتنا ہنگامہ نہیں ہوا جتنا مودی حکومت میں ہوا ہے۔ ایک طرف سے بی جے پی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اپوزیشن لیڈر بدعنوان ہیں اور اس لیے یہ صحیح ہے کہ وہ سی بی آئی/ ای ڈی کے رڈار پر ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی انتقامی سیاست ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جولیڈر بی جے پی سے اختلاف رکھتے ہیں ان کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی سے عوامی ناراضگی کے اثرات کا اندازہ لگانا آسان نظرآتا ہے اوراسی وجہ سے حکمراں پارٹی اپوزیشن پرمزید جارحانہ حملے کرکے جھوٹ کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔
Published: undefined
اپوزیشن کے پاس سب سے طاقتور معاشی ہتھیار ہے۔جس میں نوکری کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ اس سلسلے میں نجی ڈیٹا ایک سنگین تصویر پیش کرتا ہے۔ چند سرکاری نوکریوں کے لئے اندھی دوڑ، بیرون ملک کم/ درمیانی مہارت والی نوکریاں تلاش کرنے کی دوڑ، مینوفیکچرنگ کی بڑھتی سرمائے کی شدت، جس کا مطلب ہے سرمایہ کاری کے تئیں یونٹ کم نوکریاں، مہارت کی کمی جو بہت سے ہندوستانیوں کو مختلف ملازمتوں کے لیے نا اہل بناتی ہے۔اس طرح کے کئی مسائل ہیں جس پرحکومت کو آئنہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف اپوزیشن کا نہیں ہے بلکہ رائے دہندگان کو خود یہ ذمہ داری لینی ہوگی اور ہر پانچ سال بعد اپنے منتخب کردہ نمائندہ سے سوال پوچھتے ہوئے اس کا احتساب کرنا چاہئے۔
Published: undefined
دھیان رہے کہ اب جبکہ انتخابی شیڈول جاری ہوچکا ہے تو اس بات کے بھی اندیشے ہیں کہ ملک میں کچھ قائدین اور کچھ گوشوں کی جانب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ اشتعال انگیز یا نفرت انگیز بیانات جاری کئے جاسکتے ہیں۔ ملک کے عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہوں۔ اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے ملک اور عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ملک کو ترقی کی راہ پرلے جانے والوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ مساوی سلوک کرنے اور قانون اور دستور کا احترام کرنے والوں کا انتخاب کیا جانا چاہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined