فکر و خیالات

کیا یوپی میں گجرات جیسا کھیل ہوگا؟

سنگھ، بی جے پی اور یوپی کی بھگوا سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں سب کی نظریں مودی-شاہ کے اگلے قدم اور سنگھ-یوگی کے رویے پر لگی ہوئی ہیں

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

 

سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے کے ووٹنگ ختم ہونے کے بعد میں لکھنؤ سے دہلی کی پرواز میں آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اندریش کمار کے ساتھ ایک دلچسپ ہمسفر کے طور پر ملا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی انتخاب جیتتی ہے، تو حکومت سے ان کی کیا امیدیں ہیں۔ جواب ملا، ’’ہندو دہشت گرد کہلائے جانے والے تمام معاملات میں کلوزر رپورٹ حاصل کرنا۔‘‘ اندریش خود اجمیر بم دھماکہ کیس میں سوامی اسیمانند اور مدھیہ پردیش کے سنگھ کے پرچارک سنیل جوشی کے ساتھ ملزم تھے۔ مودی نے آخرکار اپنے سنگھی بھائیوں کو انعام سے نوازا۔

دس سال بعد میں مودی پر اندریش کمار کا بیان پڑھ کر حیران رہ گیا، ’’بھگوان رام نے بی جے پی کو اس اس کے تکبر کی وجہ سے نشستیں 240 (اکثریت سے 32 کم) تک محدود کر کے سزا دی ہے۔‘‘

یہ دونوں مثالیں پچھلی ایک دہائی میں بی جے پی اور اس کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے درمیان تعلقات میں آئی تبدیلی کا نچوڑ ہیں۔ جس آر ایس ایس نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لیے انتھک کوششیں کیں، وہی اب سیاست میں جو کچھ بھی غلط ہو رہا ہے، اس کے لیے اسے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔

Published: undefined

اب یہ دونوں کے درمیان کی لگاتار چل رہی لڑائی ہے، چاہے وہ کھل کر سامنے نہ آئی ہو۔ فی الحال تو یہ پردے کے پیچھے اور علامتوں کے ذریعے ہی لڑی جا رہی ہے۔ بی جے پی خود کو اس بچے کی طرح سمجھتی ہے جو بالغ ہو چکا ہے اور اب اسے اپنی ماں کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ سنگھ کو بھی لگتا ہے کہ بی جے پی میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے بعد اب اس کی پکڑ ڈھیلی پڑ گئی ہے اور بچہ اس کے دانتوں تلے دب گیا ہے۔

تعلقات میں تلخی

مودی کے عروج میں سنگھ کے صدر موہن بھاگوت کا فعال کردار رہا ہے، پہلے بی جے پی کی مہم کمیٹی کے صدر کے طور پر اور پھر 2013-14 میں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کر کے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مودی نے پچھلے 10 سالوں میں بھاگوت کے ساتھ روبرو ملاقات نہیں کی۔ ایودھیا میں رام مندر افتتاح کے موقع پر ایسی ملاقات کی ان کی درخواست کو مودی نے مسترد کر دیا تھا۔

دونوں تنظیموں کے درمیان قربت کے ساتھ آگے بڑھنے میں مددگار رہی باہمی ڈور اب ان کے درمیان ایک ایسی الجھن بن چکی ہے جسے سلجھانا ضروری ہے۔ اعلیٰ قیادت کے قریبی ایک بی جے پی رہنما کے مطابق، ’’یہ دو لیڈروں کے لیے کرو یا مرو کی لڑائی ہے۔ بیچ کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔‘‘

Published: undefined

ناپسندیدہ عوامل

ہر کوئی جانتا ہے کہ سنگھ کبھی بھی مودی پر مرکوز مہم کے حق میں نہیں تھا۔ وہ حکومت کی کامیابیوں اور مستقبل کی منصوبہ بندیوں پر مرکوز مہم چاہتا تھا۔ پھر بھی، بی جے پی رہنما اپنی 'مودی کی گارنٹی' مہم کے ساتھ آگے بڑھے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد سنگھ نے اپنے قدم تھوڑا پیچھے ضرور کھینچے لیکن فوراً اپنی تشویش ظاہر کرنے کے بجائے انتخابات کا انتظار کرنا بہتر سمجھا۔ سنگھ کے مزاج کو بھانپتے ہوئے بی جے پی صدر جے پی نڈا نے یہ مسئلہ اپنے اس بیان کے ساتھ عوامی کر دیا، ’’شروع میں بی جے پی اتنی مضبوط نہیں تھی، اس لیے ہم سنگھ پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن اب بی جے پی اپنی راہ پر آگے نکل چکی ہے اور اسے تنظیم چلانے یا انتخابات لڑنے میں سنگھ کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

انتخابات کے بعد اب سنگھ بی جے پی کو اسی انداز میں جواب دے رہا ہے۔ جب بھاگوت نے کہا، ’’ایک سچا آر ایس ایس کارکن کبھی متکبر نہیں ہوتا‘‘، تو واضح تھا کہ ان کے نشانے پر مودی تھے۔ سنگھ کے انگریزی ترجمان آرگنائزر میں اس کے تھنک ٹینک کے رکن رتن شاردا کے مضمون میں بھی مہم اپنے ارد گرد مرکوز رکھنے کے لیے مودی پر حملہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’بی جے پی حد سے زیادہ خود اعتماد (مودی پر) کے باعث ہاری۔‘‘

Published: undefined

بھاگوت نے کیا کہا؟

اس مہینے کے شروع میں جھارکھنڈ کے دُمکا میں سنگھ کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا تھا، "ترقی کا کوئی اختتام نہیں ہے، چاہے وہ داخلی ہو یا خارجی۔ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے ابھی تک انسان بننا بھی نہیں سیکھا ہے، جو سپرمین بننا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہاں نہیں رکتے، وہ دیوتا بننا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر، ایشور مہان ہے، اس لیے وہ خود ایشور بن جانا چاہتے ہیں۔ اور پھر ایشور کہتے ہیں، میں ہر جگہ موجود ہوں!‘‘

یہاں کمزور یادداشت والوں کو یاد دلانا ضروری ہے کہ وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں مکمل ہونے والے انتخابات سے پہلے کہا تھا، "جب تک میری ماں زندہ تھیں، مجھے لگتا تھا کہ شاید میرا جنم حیاتیاتی طور پر ہوا تھا لیکن ان کی موت کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ایشور نے یہاں بھیجا ہے۔‘‘

اب اگر کسی کو اس بات پر شک رہا ہو کہ بھاگوت کس کو نشانہ بنا رہے تھے، تو کانگریس رہنما جے رام رمیش نے یہ کہہ کر دھندلاہٹ دور کر دی، ’’مجھے یقین ہے کہ خود کو غیر حیاتیاتی وزیر اعظم کہنے والے کو اب تک ناگپور (سنگھ ہیڈکوارٹر) کی طرف سے لوک کلیان مارگ (وزیر اعظم رہائش) پر داغی گئی تازہ ترین اگنی میزائل کے بارے میں معلوم ہو چکا ہوگا۔‘‘

Published: undefined

براہ راست تقسیم ممکن؟

سنگھ باقاعدگی سے بی جے پی سمیت اپنی ذیلی تنظیموں کے لیے اپنا کیڈر تیار کرتا رہا ہے۔ کسی بھی وزیر، رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی کے اسٹاف میں سنگھ کا ایک کارکن ہونا لازمی ہوتا ہے۔ سنگھ اپنے سیکریٹریوں کے ذریعے بی جے پی کی تنظیم کا نظام سنبھال رہا ہے، مثلاً- سریش سونی (اٹل بہاری واجپئی کے دور میں)، رام لال، ڈاکٹر کرشن گوپال اور ارون کمار (مودی کے دور میں)۔ ریاست سے لے کر ضلع ہیڈکوارٹر تک ہر جگہ ایک ہی نظام لاگو ہے، اور دونوں تنظیموں کے کارکن آپس میں اس طرح ملے جلے ہیں جیسے پانی میں چینی۔ ایسے میں کیا سنگھ اپنے تمام کیڈر کو اچانک یا آہستہ آہستہ بی جے پی سے باہر نکال سکتا ہے؟

واضح ہے کہ ‘نہیں’۔ اب وہ اس کے لیے واضح اپیل بھی جاری کرے، تب بھی اس کے کیڈر کا ایک بڑا حصہ سیاسی تنظیم میں رہنا پسند کر سکتا ہے۔ ارون کمار اور سریش سونی جیسے سنگھ کے لیڈر مودی کے لیے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں۔ سونی پچھلے 10 سالوں میں مرکز کے بڑے سیاسی فیصلوں پر مودی کے مشیر رہے ہیں۔ امیدواروں کے انتخاب اور حکومت میں اہم عہدوں پر تقرریوں میں بی جے پی کے او بی سی حامی موقف کے معمار وہی ہیں۔

Published: undefined

فائدہ کم ہونے کا احساس

اتنا سب ہونے کے باوجود، دونوں تنظیموں کی کئی ریاستی اکائیاں آپس میں تعاون کر رہی ہیں۔ جھارکھنڈ میں سنگھ کی اکائی نے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو مکمل تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ مانتے ہوئے کہ اپنے تمام کیڈر کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے اور بی جے پی کے ساتھ کھلی لڑائی سے 99 سال پرانی تنظیم تقسیم ہو سکتی ہے، آر ایس ایس قیادت آہستہ آہستہ بی جے پی قیادت کو متکبر اور بے وفا ثابت کرنے کے لیے اس پر حملے کر رہی ہے۔

بی جے پی کو بھی فائدہ کم ہونے کا احساس ہے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کی نشستیں 302 سے گھٹ کر 240 رہ گئی ہیں۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات میں، وہ پہلے کی نسبت بہت کم فرق سے جیت سکی۔ پارٹی کرناٹک اور تلنگانہ انتخابات ہار گئی۔ اگلے کچھ مہینوں میں اسے مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔ ان میں سے کسی بھی ریاست میں اس کے لیے حالات سازگار تو نہیں ہیں۔

Published: undefined

سنگھ کو مطمئن کرنے کے لیے

یہ بتاتا ہے کہ بی جے پی سنگھ کو خوش کرنے کی کوششوں میں کیوں لگی ہوئی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں، 58 سال پرانے اس سرکاری حکم کو مرکز نے خاموشی سے منسوخ کر دیا جو سرکاری ملازمین کو سنگھ کی شاخوں میں شرکت سے منع کرتا تھا۔ اس فیصلے کے وقت پر کئی سوالات اٹھے۔ اسے تو پچھلے 10 سالوں کے دوران کبھی بھی منسوخ کیا جا سکتا تھا۔ یہ اعلان اگلے سال اس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ ابھی ہی کیوں، جب دونوں کے درمیان تعلقات ٹوٹنے کی حد تک کشیدہ ہیں؟ اس کا صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے، آگ کے شعولوں پر پانی کی بوچھار کرنا۔

18 سال کی تلخی

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بی جے پی کے ساتھ سنگھ کے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے طور پر اٹل بہاری واجپئی کے چھ سالہ دور میں دونوں تنظیمیں دو قطبوں پر تھیں۔ اس حد تک کہ سنگھ کے عہدیداروں نے یشونت سنہا کو تخریبی ماہر اقتصادیات اور وزیر خزانہ، جبکہ واجپئی کو ہندوستان کا بدترین وزیر اعظم تک قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی اقتصادی لبرلائزیشن، عوامی اداروں کی نجکاری اور یہاں تک کہ پاکستان کی قرارداد کی بھی مخالفت کی۔ وشو ہندو پریشد نے ایودھیا میں رام شلا پوجن یاترا نکالی۔

Published: undefined

لیکن موہن بھاگوت کی نسبت اس وقت کے سنگھ کے صدر کے ایس سدرشن کہیں زیادہ غیر سیاسی اور لبرل تھے۔ انہوں نے کبھی بھی واجپئی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے بجائے اس کے اپنی ہی غلطیوں کے بوجھ تلے دبنے کا انتظار کیا۔ اصل غور و فکر 2004 میں واجپئی حکومت کی ناکامی کے بعد شروع ہوئی۔ 2006 میں چترکوٹ میں ہوئی ایک میٹنگ میں سنگھ کے اعلیٰ عہدیداروں نے سنجیدگی کے ساتھ 'پٹڑی سے اتر چکی' بی جے پی کو چھوڑنے اور اس کے بدلے ایک نئی سیاسی تنظیم تیار کرنے پر غور کیا، جو سنگھ کے نظریات پر عمل کرے۔

لیکن یہ تجویز اس میں لگنے والے وقت کے باعث مسترد کر دی گئی۔ اس کے بجائے بی جے پی میں اصلاح کرنے اور اسے سنگھ کی نظریاتی راہ پر واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں تقریباً 7 سال لگے۔ اس کا کیا اور کتنا فائدہ ہوا، یہ حساب کتاب ابھی باقی ہے۔

Published: undefined

ان کا کانٹا اوپر ہے

اتر پردیش میں قیادت کا بحران ایک اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں زبردست جیت کے بعد سنگھ نے مودی-شاہ کی جوڑی کو مودی کی پسند (منوج سنہا) کے بجائے یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ منتخب کرنے پر مجبور کیا تھا۔ سنگھ کو مودی کے علاوہ ہندوتوا کی ایک اور علامت کی ضرورت تھی۔ لیکن جیسے جیسے یوگی کی مقبولیت پورے ملک میں بڑھتی گئی، ویسے ویسے دونوں تنظیموں کے درمیان اختلافات بھی بڑھنے لگے۔

مودی-شاہ کی ٹیم نے پچھلے سات سالوں میں یوگی کی راہ میں رخنہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس میں دو نائب وزرائے اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کو وزیر اعلیٰ کی سربراہی والی میٹنگوں کا بائیکاٹ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا بھی شامل تھا۔ یہ شدید عدم انضباط تھا، پھر بھی پارٹی نے کارروائی سے گریز کیا۔

Published: undefined

کیا یوپی میں بھی گجرات ماڈل چلے گا؟

یوگی آدتیہ ناتھ نے کمر کس لی ہے۔ بغیر لڑے وہ اپنی کرسی نہیں چھوڑنے والے۔ بی جے پی کئی فارمولوں پر کام کر رہی ہے تاکہ زیادہ نقصان بھی نہ ہو اور انہیں باہر کا راستہ بھی دکھا دیا جائے۔ ان میں سے ایک طریقہ 'گجرات ماڈل' کی نقل بھی ہے، جس میں وزیر اعلیٰ اور پارٹی تنظیم سمیت پوری وزارتی کونسل کو ایک جھٹکے میں بدل دیا گیا تھا۔ بی جے پی یوگی، پاٹھک، موریہ اور صوبائی صدر بھوپندر چودھری کی جگہ مکمل طور پر نئے اور نامعلوم چہروں پر داؤ لگا سکتی ہے، جیسا کہ وہ راجستھان، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، گجرات اور مدھیہ پردیش میں پہلے ہی کر چکی ہے۔

یہ پرسکون بیٹھ کر تماشہ دیکھنے کا وقت ہے۔ دیکھیں کہ ایسا کوئی فیصلہ کب کیا جاتا ہے اور اس پر یوگی آدتیہ ناتھ اور سنگھ کس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined