انگریزی کی ایک کہاوت ہے، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’جولوگ مر جاتے ہیں ، وہ اپنی کہانی نہیں کہہ پاتے‘۔ اسی طرح وہ 61 لوگ جو اتر پردیش میں 20 مارچ 2017 سے 7 جولائی 2018 کے درمیان مبینہ انکاؤنٹر کے واقعات میں مار ڈالے گئے وہ بھی اپنی کہانی نہیں سنا پائیں گے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے 90 فیصد سے زائد انکاؤنٹر کے واقعات فرضی ہیں اور ان کا مقصد نظم و نسق کی صورت حال کو بہتر بنانے کی آڑ میں لوگوں کا قتل کرنا ہے۔
مڈبھیڑ کے ایسے واقعات کے تعلق سے انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کی طرف سے داخل کی گئی مفاد عامہ کی عرضی پر سپریم کورٹ نے یو پی کی صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور دو ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے۔ اس نوٹس کو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے لئے شدید دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔
اپنی عرضی میں پی یو سی ایل نے مطالبہ کیا ہے کہ مارچ 2017 سے (جب سے اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ) اب تک انکاؤنٹر میں جتنے بھی قتل ہوئے ہیں ان کی جانچ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی ) سے کروائی جائے اور تفتیش کی نگرانی سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے کرائی جانی چاہئے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ جس طرح پولس انکاؤنٹر کے واقعات پیش آ رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت نے پولس کو انکاؤنٹر کی پوری چھوٹ دی ہوئی ہے۔ نیز یہ کہ کئی مواقع پر یوگی آدتیہ ناتھ کے ایسے بیان آئے جن میں وہ مڈبھیڑ میں کئے گئے قتلوں کو جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں پولس سے امید نہیں کی جاتی کہ وہ غیر جانبدارانہ طریقہ سے تفتیش کرے گی، لہذا اس کی سی بی آئی جانچ کرائی جانی بے حد ضروری ہے۔
پی یو سی ایل کی عرضی میں 31 مارچ 2018 تک کے انکاؤنٹر کے واقعات کے اعداد و شمار دئے گئے ہیں۔ اس کے مطابق صوبہ میں گزشتہ سال مارچ 2017 سے لے کر اس سال مارچ 2018 تک 1100 سے زیادہ انکاؤنٹر ہوئے جن میں 49 افراد مارے گئے اور 370 افراد زخمی ہو گئے۔ عرضی میں انسانی حقوق کمیشن کو صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کا بھی ذکر ہے جن کے مطابق یکم جنوری 2017 سے 31 مارچ 2018 کے بیچ ان مڈبھیڑوں میں 45 افراد ہلاک ہو گئے۔
اتر پردیش پولس کی طرف سے جاری کئے گئے بیورے کے مطابق 20 مارچ 2017 سے لے کر 7 جولائی 2018 تک پولس انکاؤنٹر کے واقعات کی تعداد 1400 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں 61 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولس کی نگاہ میں یہ تمام افراد شاطر بدمعاش تھے۔ ہر جگہ مڈبھیڑ کی کہانی و طریقہ کار تقریباً یکساں ہے ۔ ان مڈبھیڑ کے واقعات میں قانونی طور پر جس طرح سے حکومت کو تفتیش کرانی تھی وہ نہیں کرائی گئی ہے۔ اس حوالہ سے سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظر انداز کیا گیا۔ نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ عدالتی جانچ ہوئی ۔
جو 61 افراد ان مڈبھیڑ کے شکار بنے ان کے 27 معاملات میں محکمہ پولس نے جانچ کر اپنے کو پاک صاف قرار دے دیا ہیے۔ بقیہ 34 معاملات کی جانچ ابھی ہونی ہے ، یعنی جن معاملات میں ابھی جانچ ہونی ہے ان کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت بننے سے قبل تین سالوں (2014، 2015، 2016) میں مڈبھیڑ کے کل 16 واقعات رونما ہوئے۔ یوگی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد ان واقعات میں اچانک بےتحاشہ اضافہ ہوا ہے جس پر لوک سبھا میں بھی تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ پی یو سی ایل نے اپنی عرضی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے خصوصی طور پر اس بیان کا ذکر کیا گیا ہے جسے انہوں نے بارہا دہرایا ہے کہ ’مجرم یا تو جیل جائیں گے یہ انکاؤنٹر میں مارے جائیں گے۔‘ عرضی میں گزشتہ 19 نومبر کو دئے گئے وزیر اعلیٰ کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ سماج کے امن و سکون کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور بندوق پر یقین رکھتے ہیں انہیں بندوق کی زبان میں ہی جواب دیا جائے گا۔ پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں اس طرح کی زبان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ایک دیگر انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیم ’رہائی منچ ‘ نے مشرقی یو پی بالخصوص اعظم گڑھ ضلع اور اس کے مضافات میں فرضی مڈبھیڑوں کی گہرائی سے تفتیش کی ہے۔ رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو نے بتایا کہ پچھلے دنوں جس طرح 5 لوگوں، موہن پاسی، رام جی پاسی، جے ہند یادو، مکیش راج بھار اور راکیش پاسی کو پولس نے مڈبھیڑ دکھا کر مار ڈالا وہ پولس کی قلعی کھول کر رکھ دینے کے لئے کافی ہے۔ ان سبھی کو کم و بیش ایک ہی طرح پولس نے بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا ہے ۔
معلوم چلا ہے کہ اعظم ضلع کے کندراپور تھانہ کے داروغہ نے راجیو یادو کو فون کر کے گالیاں دی ہیں اور سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی۔ راکیش پاسی کو مڈ بھیڑ کے دوران اسی علاقہ میں قتل کیا گیا ہے۔
(مضمون نگار ہندی کے کوی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں اور لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ رابطہ۔ 9335778466)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز