جوں جوں پارلیمانی انتخابات قریب آ رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ کارروائیاں کئی قسم کی ہیں۔ خاص طور پر کانگریس کے رہنماؤں کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کروانا اور کانگریس اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کی جانچ کا دائرہ بڑھانا قابل ذکر ہے۔ اب تو ایسے ایسے لوگوں کو بھی بی جے پی میں شامل کیا جا رہا ہے جو اب تک کی پوری سیاسی زندگی میں بی جے پی کو گالیاں دیتے رہے ہیں۔ اسے بی جے کی اعلیٰ کمان کی بے شرمی و بے غیرتی قرار دیا جا رہا ہے کہ جن لیڈروں کی گالیاں کھائی جاتی رہی ہیں ان کو اپنے پالے میں لا کر نہ صرف ان کی عزت افزائی کی جا رہی ہے بلکہ ان میں سے بعض کو الیکشن لڑنے کا ٹکٹ بھی دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
خیر اس حکومت نے سیاسی غیرت کا جنازہ تو پہلے ہی نکال دیا تھا اب اس نے اس کو ایک ادارہ جاتی شکل دے دی ہے۔ لیکن اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ انکم ٹیکس نے کانگریس کو 3567 کروڑ روپے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کروڑوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اب سی پی ایم کا بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کر دیا گیا ہے۔ اگلا نمبر کس کا ہے کہا نہیں جا سکتا۔ گویا ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن ہی نہ لڑ سکیں۔
Published: undefined
جب اس معاملے پر کانگریس کی جانب سے سخت اعتراض کیا گیا اور یہ پوچھا گیا کہ جن بنیادوں پر اس کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں انہی بنیادوں پر بی جے پی کو کیوں نہیں جاری کیے گئے تو انکم ٹیکس محکمے نے کہہ دیا کہ جولائی تک کانگریس سے ٹیکس جمع کرنے کو نہیں کہا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ دراصل اگر انکم ٹیکس محکمہ اس پر اصرار کرتا تو وہ بی جے پی کے معاملے میں نرمی برتنے کے سلسلے میں پھنس سکتا تھا۔ اسی لیے اس نے فی الحال کانگریس کے خلاف کارروائی کو روک دیا۔ لیکن اس نے بی جے پی کے بنک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا یا کوئی رائے نہیں دی۔
Published: undefined
ادھر جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کے بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو گرفتار کر لیا گیا۔ سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا ایک سال سے جیل میں ہیں ہی۔ سابق وزیر صحت ستیندر جین بھی جیل میں ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو بھی جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ تو عدالت نے چھ ماہ کے بعد ان کی ضمانت منظور کر لی۔ عدالت نے اس سلسلے میں ای ڈی کی زبردست سرزنش کی اور سوال پوچھا کہ جب ان لیڈروں کے خلاف ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے تو پھر انھیں کیوں جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ لیکن بہرحال عدالت کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جب ثبوت نہیں مل رہے ہیں تو پھر ضمانت کیوں نہ دی جائے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ پی ایم ایل اے قانون کو حکومت نے اتنا سخت بنا دیا ہے کہ اس میں گرفتار کیے جانے والے شخص کی جلد ضمانت نہیں ہو سکتی۔
Published: undefined
ان واقعات کی روشنی میں اب یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ کیا عام انتخابات صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ ہوں گے۔ یہ سوال صرف ہندوستان کے اندر ہی نہیں پوچھا جا رہا ہے بلکہ بیرون ملک میں بھی پوچھا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے نے اشاروں کنایوں میں انتخابات کے صاف شفاف نہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد اقوام متحدہ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ بھارت میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریز کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جس طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں صاف ستھرے اور آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں اسی طرح بھارت میں بھی ہوں گے۔ سیاسی اور سول کارکنوں سمیت سب کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ہر شخص کو آزادانہ ماحول میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔
Published: undefined
دوجارک سے ایک روز قبل امریکہ نے بھی ا س امید کا اظہار کیا تھا کہ ہندوستان میں آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو ملر نے کیجریوال کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہمیں اس کا علم ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں کانگریس کے اس الزام کا بھی علم ہے کہ اس کے بینک اکاؤنٹ کو منجمد کر دیا گیا ہے اور اسے انکم ٹیکس محکمے کا نوٹس ملا ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے ان بیانات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بیانات غیر ضروری ہیں۔ جبکہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان کوکثیر رکنی تنظیموں کی جانب سے ہندوستان میں صاف ستھرے انتخابات سے متعلق بیانات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کے عوام انتخابات کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بنائیں گے۔ ہمیں اس کی امید ہے۔
Published: undefined
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں ان میں اس بات کی گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اگر سیاسی پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کے لیے سازگار ماحول فراہم نہ کیا جائے۔ سب کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع نہ ملیں۔ خود تو ہزاروں کروڑ روپے کا چندہ کیا جائے اور دوسری پارٹیوں کے اکاؤنٹ مختلف بہانوں سے منجمد کیے جائیں اور بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی نہ کرتے ہوئے صرف اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو پھر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
اتر پردیش کے سابقہ اسمبلی انتخابات کے دوران کس طرح غیر بی جے پی ووٹروں کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا خاص طور پر رامپور میں مسلم ووٹروں کو مختلف بہانوں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا گیا اور دوسرے مقامات پر بھی غیر بی جے پی ووٹروں پر ڈنڈے برسائے گئے تو پھر کیسے یقین کیا جائے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اگر یہ بات یقینی ہوتی تو نہ تو اقوام متحدہ کو بیان دینا پڑتا اور نہ ہی امریکہ اور جرمنی کو۔ اس سے قبل بھی بعض حلقوں میں دبنگ امیدواروں کی جانب سے ووٹوں میں دھاندلی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن حکومت کی سطح پر دھاندلی نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اب حکومتی سطح پر ایسے حالات بنائے جا رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں انتخابی مہم نہ چلا سکیں اور غیر بی جے پی ووٹروں میں اتنا خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے کہ وہ ووٹ دینے ہی نہ آئیں اور اگر آئیں بھی تو انھیں بھگا دیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی ہے کہ وہ صاف ستھرے انتخابات کرائے لیکن جس طرح کمیشن پر حکومت کی بالادستی ہے اس کے پیش نظر اس سے کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined