پہلے یہ چند منتخب واقعات ملاحظہ فرمائیں:
اپریل 2022 میں جب دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہندوؤں کی ایک شوبھا یاترا کے دوران ایک مسجد کے سامنے ہنگامہ آرائی کی گئی تو مقامی مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔ مسلمانوں پر پتھراؤ کا الزام لگایا گیا اور اس کے بعد میونسپل کارپوریشن نے بہت سے مکانوں اور دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا۔ اس کارروائی کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے فریاد کی گئی اور اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس کرشن مراری اور ہیما کوہلی کی بینچ نے اس پر روک لگائی اور ضوابط کی پابندی کے بغیر انہدامی کارروائی کو غلط قرار دیا۔ بائیں بازو کی رہنما برندا کرات نے جب بلڈوزر کے سامنے کھڑے ہو کر اسے روکنے کی کوشش کی تو کہا گیا کہ ہمیں فیصلے کی کاپی نہیں ملی ہے۔ بالآخر فیصلے کی کاپی فراہم کی گئی، اس کے بعد انہدامی کارروائی رکی۔ تب تک درجنوں دکانیں مسمار کر دی گئیں جن میں چند غیر مسلموں کی بھی تھیں۔
گزشتہ سال اگست میں ہریانہ کے نوح علاقے میں ہندوؤں کی ایک مذہبی یاترا کے دوران تشدد کے بعد انتظامیہ نے پانچ روز تک انہدامی کارروائی چلاتے ہوئے 1208 عمارتوں اور ڈھانچوں کو مسمار کر دیا۔ تقریباً تمام املاک مسلمانوں کی تھیں۔ محمد شہود نامی ایک شخص کی 4000 سے زائد مربع فٹ نجی زمین پر تعمیر 18 دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا جن میں 14 مستقل عمارتیں تھیں اور میڈیکل اسٹور اور پیتھ لیب بھی تھی، جبکہ عدالت کی جانب سے اس کارروائی پر روک لگا دی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود جب انہدامی کارروائی عمل میں لائی گئی تو چنڈی گڑھ کورٹ نے اس پر سخت ریمارکس دیے۔
Published: undefined
گزشتہ سال پریاگ راج (الہ آباد) میں ایک سماجی کارکن جاوید محمد کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا۔ حالانکہ وہ مکان ان کے نہیں بلکہ ان کی والدہ کے نام تھا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اور ان کی بیٹی نے سی اے اے کے خلاف احتجاج میں سرگرم حصہ لیا تھا اور جب بی جے پی رہنما نوپور شرما نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی تھی تو الہ آباد میں اس کے خلاف نکلنے والے مظاہرے میں وہ شامل تھے۔
اسی سال دہلی میں ایک مسجد، اتراکھنڈ میں ایک مدرسہ، آسام میں بنگالی بولنے والے ہزاروں مسلمانوں کی جھونپڑیوں، مدھیہ پردیش میں بیف کی اسمگلنگ کے الزام میں 11 مکانات، راجستھان کے ادے پور میں ایک ہندو ساتھی کو چاقو مارنے والے ایک مسلم طالب علم کے کرائے کے مکان اور مدھیہ پردیش کے چھترپور میں ایک مقامی کانگریس رہنما کی کروڑوں کی حویلی کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دیا گیا۔ آسام میں مسلمانوں کے متعدد مکانات اور مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر ڈھا دیا گیا۔ جولائی میں مہاراشٹر کے کولہاپور میں انتظامیہ نے مسلم ملکیت والی 60 سے 70 املاک کو بلڈوز کر دیا جس پر بامبے ہائی کورٹ نے ناراضگی ظاہر کی اور اس کارروائی کو روک دینے کا حکم دیا تھا۔
Published: undefined
اسی جمعرات کو اتراکھنڈ کے مقام لسکر میں ایک مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا۔ اس مسجد کے خلاف ہندوتووادی تنظیم ہندو جاگرن منچ کی جانب سے مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسجد غیر قانونی نہیں ہے۔ ان کے پاس اس کی ملکیت کے کاغذات ہیں لیکن پولیس اور کارپوریشن کے عملے نے ان کاغذات کو دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ اس سے قبل اتراکھنڈ کے شملہ میں ایک قدیم مسجد پر بنی اضافی منزلوں کو غیر قانونی قرار دے کر زبردست ہنگامہ کیا گیا۔ پولیس اور ہندو تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا اور کئی پولیس والے زخمی ہوئے۔ بالآخر مقامی مسلمانوں نے اضافی منزلوں کو از خود مسمار کر دینے کی پیشکش کر کے معاملے کو ٹھنڈا کیا۔
اسی ہفتے کو ممبئی کے کچی بستی کے علاقے دھاراوی میں ایک مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر کارپوریشن کا عملہ اسے منہدم کرنے پہنچا۔ ہزاروں مسلمانوں نے سڑک پر بیٹھ کر ممکنہ انہدامی کارروائی کی مخالفت کی جس پر وہاں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ لیکن یہ مسجد کب تک محفوظ رہے گی، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اسی سال لکھنؤ کے اکبر نگر کو پوری طرح مسمار کر دیا گیا۔ وہاں بارہ سو سے زائد مکانات تھے اور تقریباً سبھی مسلمانوں کے تھے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ککریل ریور بیوٹیفکیشن کے لیے اس آبادی کو توڑنا ضروری ہے۔ یہ بھی خوب ہے کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہوتی ہے، وہیں اس قسم کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ادھر ہلدوانی میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی پر اب بھی انہدام کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ریلوے کی زمین ہے جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر کے مکانات بنوا لیے ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
Published: undefined
یاد رہے کہ بلڈوزر سے مکانوں کو مسمار کرنے کا آغاز 2017 میں اتر پردیش سے ہوا جہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ملزموں کے مکانات کو منہدم کرنے کی اپنی دھمکی پر عمل شروع کیا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش، آسام، مہاراشٹر اور ہریانہ وغیرہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بھی بلڈوزر جسٹس شروع ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ میں مسلمانوں کی نجی املاک کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کرنے کا مقابلہ چل پڑا ہے۔ دراصل یوگی کی انہدامی کارروائی کے بعد ہندوؤں کے ایک حلقے میں ان کی مقبولیت بڑھ گئی۔ پھر کیا تھا، دیگر بی جے پی وزرائے اعلیٰ نے بھی خود کو مقبول بنانے کے لیے بلڈوزر کا سہارا لے لیا۔ اب مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو ہندوتوا کے نئے برانڈ بننے کے لیے جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے فروری میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں اور عام آدمی پارٹی کی حکومت والی ایک ریاست میں 2022 میں اپریل سے جون کے درمیان مجموعی طور پر 128 تعمیرات کو، جو کہ بیشتر مسلم ملکیت والی تھیں، مسمار کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہندوستان کی انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی جانب سے بھی ان کارروائیوں کی مخالفت کی جاتی رہی اور اسے غیر قانونی قرار دے کر حکومت و عدلیہ سے اسے روکنے کی اپیل کی جاتی رہی ہے۔
Published: undefined
بلڈوزر کی ان کارروائیوں کو بلڈوزر جسٹس یا بلڈوزر انصاف کا نام دیا گیا۔ جبکہ قانون کی کسی بھی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ کسی ملزم کے مکان کو منہدم کر دیا جائے۔ اس ملک میں ہر جرم کے لیے الگ الگ سزائیں مقرر ہیں اور کسی ایک شخص کے جرم کی سزا اس کے پورے گھر کو نہیں دی جا سکتی۔ لیکن مکان یا دکان منہدم کرکے پورے گھر کو سزا دی جاتی ہے اور اس طرح ایک غیر قانونی کام کیا جاتا ہے۔ جب اس پر بہت زیادہ ہنگامہ ہونے لگا اور سپریم کورٹ میں اس کارروائی کو چیلنج کر دیا گیا، تب جا کر عدالت عظمیٰ نے اس پر ایک موقف اختیار کیا اور انہدامی کارروائی کو یکم ستمبر تک روک دیا۔ لیکن کیا اس کے بعد بھی اس پر روک لگی رہے گی یا سپریم کورٹ جائز عمارتوں کو بلڈوزر سے توڑنے کو غیر قانونی قرار دے دے گا، کہا نہیں جا سکتا۔
جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشوناتھن کی بینچ نے کہا کہ اس کی اجازت کے بغیر نجی املاک کو بلڈوزر سے مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی ملزم کا جرم ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس کی املاک کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنا قانون پر بلڈوزر چلانا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے دو ستمبر کو سماعت کرتے ہوئے ضابطے کی پابندی کے بغیر انہدامی کارروائی کو غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں ملک گیر سطح پر رہنما ہدایات جاری کرے گی۔ جبکہ 12 ستمبر کو اس نے کہا تھا کہ کسی شخص کا کسی جرم میں ملوث ہونا اس کی نجی املاک کو مسمار کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
Published: undefined
بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ریاستوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ایسی کئی دفعات ہیں جو مخصوص حالات میں تجاوزات کو ہٹا کر املاک کو منضبط کرنے کا اختیار انتظامیہ کو دیتی ہیں۔ وہ اس سلسلے میں مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے قوانین کی مثال پیش کرتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی نے ناجائز طریقے سے عمارت تعمیر کی ہے تو اسے پہلے نوٹس دیا جائے، جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے اور متبادل رہائش کا انتظام کیا جائے، اس کے بعد ہی انہدامی کارروائی کی جائے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جب کہیں تشدد ہوتا ہے، اس کے بعد ہی انتظامیہ کو کیوں یاد آتا ہے کہ فلاں فلاں املاک ناجائز ہیں۔ وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ایک آبادی میں کوئی ایک ہی مکان کیسے ناجائز ہو سکتا ہے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آگے کیا کارروائی کرتا ہے اور کیا اتر پردیش سے شروع ہونے والا یہ عذاب ختم ہوتا ہے یا نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز