ہندوستان میں 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے آئینی اداروں کو کمزور کرنے، جمہوری ضابطوں کو غیر مستحکم کرنے اور آزاد آوازوں کو کچلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد تیز ہو گیا اور آجکل اس نے مزید رفتار پکڑ لی ہے۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کو ختم کرنے کی جو مہم شروع ہوئی تھی اس میں بھی برق رفتاری آگئی ہے۔ انتقامی سیاست بھی پورے شباب پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی آزاد میڈیا کو ختم کرنے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جو مذکورہ صورت حال کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
Published: undefined
سب سے پہلے ہم صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی ایک تقریر کا حوالہ دینا چاہیں گے جو انھوں نے گزشتہ دنوں وزیر قانون کرن رجیجو، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ اور سپریم کورٹ کے کئی ججوں کے سامنے کی ہے۔ انھوں نے ایک پروگرام میں جس میں بہت سے تعلیم یافتہ افراد موجود تھے ہندوستانی جیلوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم ترقی کر رہے ہیں یا تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ انھوں نے کئی جیلوں کے دورے کے اپنے مشاہدات کا ذکر کیا اور کہا کہ کسی نے کسی کو تھپڑ مار دیا کسی نے کچھ کر دیا اور ایسے لوگ دس دس بیس بیس اور تیس تیس سالوں سے جیلوں میں ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے کوئی فکر مند نہیں ہے۔ انھوں نے آخر میں جج حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہم مزید جیلیں بنانے کی بات کر رہے ہیں جبکہ انھیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے جو نہیں کہا ہے آپ لوگ اسے سمجھیے۔
Published: undefined
اسی درمیان عدالتوں میں ججوں کے تقرر اور ان کی ترقی کے سلسلے میں حکومت اور سپریم کورٹ میں بظاہر ٹکراؤ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت اپنی مرضی و منشا کے ججوں کو تعینات کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ میرٹ کی بنیاد پر ججوں کے تقرر کے حق میں ہے۔ اس بارے میں کالیجیم کے نظام پر بھی گفتگو ہو رہی ہے اور کالیجیم کے سابقہ ممبران کے بارے میں ناشائستہ باتیں بھی کہیں جا رہی ہیں۔
Published: undefined
صرف ججوں کے تقرر کا معاملہ نہیں ہے بلکہ آئینی اداروں میں تقرری کا معاملہ بھی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ نے ارون گوئل کے بحیثیت الیکشن کمشنر تقرر پر سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس نے ان کی فائل طلب کر لی اور کہا کہ الیکشن کمشنر ایسا ہونا چاہیے جو وزیر اعظم سے بھی وضاحت طلب کر سکے۔ جو یس مین نہ ہو۔ خیال رہے کہ ارون گوئل نے اپنی ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی اور اگلے دن ہی ان کو الیکشن کمشنر مقرر کر دیا گیا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ الیکشن کمشنروں کے تقرر کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک معاملے پر سماعت چل رہی تھی۔ عدالت نے سختی سے کہا کہ بہتر ہوتا کہ جب تک سماعت چل رہی تھی تقرر نہ کیا جاتا۔ بہرحال عدالت نے اس بارے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
Published: undefined
حزب اختلاف کے رہنماوں کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کی کارروائی تو عام بات ہو گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج کسی نے حکومت کے کسی فیصلے پر تنقید کی اور کل اسے ای ڈی سے نوٹس مل گیا یا اس کے یہاں چھاپہ پڑ گیا۔ شاید ہی کوئی بڑا اپوزیشن لیڈر بچا ہو جس کے خلاف یا جس کے عزیزوں اور رشتے داروں کے خلاف کارروائی نہ چل رہی ہو۔ یہ انتقامی کارروائی غیر بی جے پی حکومت والی ہر ریاست میں چل رہی ہے۔
Published: undefined
تازہ مثال چھتیس گڑھ کے کانگریسی وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کی ڈپٹی سکریٹری سومیا چورسیا کی گرفتاری کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک آئی اے ایس افسر اور دو دیگر افسروں کو پہلے ہی پکڑا جا چکا ہے۔ یوپی کے سماجوادی رہنما اور اکھلیش یادو کے چچا شیو پال یادو کا معاملہ بھی تازہ بہ تازہ ہے۔ انھوں نے بی جے پی کے خلاف ایک بیان دے دیا تو ان کی سیکورٹی کم کر دی گئی۔ دہلی میں مبینہ شراب اسکینڈل کے حوالے سے الگ کارروائی چل رہی ہے۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے خلاف اور دیگر غیر بی جے پی وزرائے اعلیٰ اور سیاست دانوں کے خلاف کارروائیاں چل رہی ہیں۔
Published: undefined
میڈیا کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک جتنے نیوز چینل تھے تقریباً سب حکومت کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔ صرف ایک نیوز چینل این ڈی ٹی وی بچا ہوا تھا اسے بھی وزیر اعظم کے دوست کہے جانے والے گوتم اڈانی نے خرید لیا اور اس کے دو ڈائریکٹرس پرنے رائے اور رادھیکا رائے اور مقبول صحافی اور اینکر رویش کمار نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ گوتم اڈانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ این ڈی ٹی وی کو خریدنا تجارتی موقع سے زیادہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اگر چہ انھوں نے اس ذمہ داری کی وضاحت نہیں کی ہے لیکن بہت سے لوگوں کو خیال ہے کہ شاید یہ ذمہ داری وزیر اعظم نے ان پر ڈالی ہے۔
Published: undefined
بہرحال بالخصوص رویش کمار کے استعفے کے بعد صحافتی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا اب اس ملک میں آزاد صحافت کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق این ڈی ٹی وی آزاد صحافت کا علمبردار تھا اسے ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہ حقیقی صحافت کا ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ تھا جسے بجھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کارپوریٹ اداروں کے ہاتھوں میڈیا اداروں کو خریدنے کے اقدامات کی بھی مخالفت کی ہے۔ لیکن اسی درمیان سوشل میڈیا کافی طاقتور ہو گیا ہے اور اب حکومت اس کو بھی پا بہ زنجیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے بھی قانون لانے کی تیاری چل رہی ہے۔
Published: undefined
حالانکہ جمہوریت میں اختلافی آوازوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی وہاں اس کے برے نتائج برآمد ہوئے۔ اس لیے حکومت کو مخالف آوازوں کو دبانے کے بجائے ان کو مزید ابھرنے کا موقع دینا چاہیے۔ لیکن یہ حکومت ایسی آوازوں کو پسند نہیں کرتی۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ این ڈی ٹی وی پر قبضے کے بعد اب حکومت ان آزاد نیوز ویب سائٹس کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جن میں دی وائر، دی پرنٹ، دی کوئینٹ اور نیوز کلک وغیرہ جیسے نجی ادارے شامل ہیں۔
Published: undefined
جہاں تک رویش کمار کی بات ہے تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بڑے صحافی تھے مگر حکومت کے آگے جھکنے کے بجائے استعفیٰ دینے کے بعد وہ ہندوستان کے سب سے بڑے صحافی بن گئے ہیں۔ انھوں نے این ڈی ٹی وی سے استعفیٰ دیا ہے صحافت سے نہیں۔ اب وہ اپنے یو ٹیوب چینل سے اور مضبوط انداز میں لوگوں تک اپنی آواز پہنچائیں گے۔ ان کے استعفے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے۔ بین الاقوامی صحافتی اداروں اور اخباروں نے ان کے استعفے کی کوریج کی ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب ہندوستان میں آزاد صحافت ختم ہو جائے گی۔
Published: undefined
مبصرین کے مطابق این ڈی ٹی کے بکنے اور پرنے رائے و رادھیکا رائے کے استعفوں پر سوشل میڈیا پر اتنی گفتگو نہیں ہوئی جتنی کہ رویش کمار کے استعفے پر ہو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف ان کے حامیوں کی جانب سے ان کو نیک خواہشات پیش کی جا رہی ہیں وہیں مبینہ حکومت نواز صحافیوں اور افراد کی جانب سے ان کو ٹرول بھی کیا جا رہا ہے۔ بیشتر یو ٹیوبرز نے رویش کمار کے استعفے پر پروگرام بنایا۔ یہاں تک کہ کچھ اسٹینڈ اپ کامیڈینز نے بھی اپنے یو ٹیوب چینل پر رویش کمار کے حق میں آواز بلند کی اور جہاں ان کی آزاد صحافت کی ستائش کی وہیں انھوں نے انھیں ٹرول کرنے والوں کی مذمت بھی کی۔
Published: undefined
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام کا ایک بہت برا طبقہ آزاد صحافت کا حامی ہے اور حکومت کی جانب سے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں بیڑی ڈالنے کے سخت خلاف ہے۔ حالانکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو حکومت کی پالیسیوں کا حامی ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں غیر جانبدار افراد کا کہنا ہے کہ وہ بھکت قسم کے لوگ ہیں۔ لیکن جو اس قسم میں شامل نہیں ہیں وہ آزاد صحافت کے حامی ہیں اور اختلافی آوازوں کو سننا چاہتے ہیں۔ یہ صورت حال ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں لیکن ایک دن وہ ضرور بدلیں گے۔ کالے بادل چھٹیں گے اور سورج کی روشنی چاروں طرف پھیلے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined