محمد حامد انصاری کی شخصیت کی کئی شناختیں ہیں۔ وہ سابق بیوروکریٹ ہیں۔ سابق نائب صدر ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ہیں۔ معزز مجاہدین آزادی کے ایک خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ایک سیکور شخصیت کے مالک ہیں اور ایک سچے مسلمان ہیں۔ اتنے سارے امتیازات کے باوجود وہ حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست آ ر ایس ایس کے آنکھوں میں ہمیشہ ایک شہتیر کی مانند چبھتے رہے ہیں۔ دراصل ان کے یہی اوصاف بی جے پی اور آر ایس ایس کے گلے نہیں اترتے۔ یہی وجہ ہے کہ موقع بموقع وہ ان کے نشانے پر رہتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس ان کو مختلف بہانوں سے بدنام کرنے اور ان کردار کشی کی کوششوں سے باز نہیں آتے۔
Published: undefined
محمد حامد انصاری کو یو پی اے کے دور حکومت میں دو بار نائب صدر بنایا گیا۔ نائب صدر کی حیثیت سے وہ دس سال تک راجیہ سبھا کے چیئرمین رہے۔ بحیثیت چیئرمین انھوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ایوان بالا کی کارروائی چلائی اور بی جے پی کو جو کہ پہلے اپوزیشن میں تھی اور بعد میں حکمراں جماعت بن گئی، راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے کوئی غیر اصولی یا غیر پارلیمانی کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جب بھی بی جے پی نے ایوان میں پارلیمانی روایات کی بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کی محمد حامد انصاری اس کوشش کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے رول بک کے خلاف کسی بھی اقدام کی اجازت نہیں دی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سیکولرزم کا بھرپور دفاع کیا اور فسطائیت کی کھل کر مخالفت کی۔ ان کی یہ ادائیں بی جے پی کو راس نہیں آئیں اور وہ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد ان کی کردار کشی پر اتر آئی۔ بلکہ ان کے نائب صدر رہتے ہوئے بھی ان پر بے بنیاد الزامات عاید کیے جاتے رہے۔
Published: undefined
جب اگست 2017 میں وہ نائب صدر کے منصب سے سبکدوش ہو رہے تھے تو اس سلسلے میں راجیہ سبھا میں ان کی الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کے کردار پر حملہ کیا تھا اور جہاں ایک طرف انھوں نے ان کے خاندان کی تاریخی حیثیت بیان کی تھی اور بحیثیت ایک کریئر ڈپلومیٹ ان کی خدمات کو یاد کیا تھا وہیں انھوں نے ایسی باتیں کہی تھیں جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ حامد انصاری کی سوچ ایک دائرے میں گھومتی رہی ہے اور وہ دائرہ ملت یا مسلمانوں کا رہا ہے۔
Published: undefined
انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کی مدت کارکردگی کا بہت بڑا حصہ مغربی ایشیا سے جڑا رہا۔ اسی دائرے میں آپ کی زندگی کے بہت سے سال گزرے۔ اسی ماحول میں، اسی سوچ میں اور ایسے ہی لوگوں کے درمیان آپ رہے۔ وہاں سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی آپ کا زیادہ تر کام وہی رہا۔ اقلیتی کمیشن ہو یا مسلم یونیورسٹی ہو۔ لیکن گزشتہ دس سال آپ نے ایک الگ قسم کی ذمہ داری نبھائی۔ ایک ایک لمحہ آئین کے بارے میں گزرا۔ اس لیے ممکن ہے کہ آپ کے اندر کچھ چھٹپٹاہٹ رہی ہو۔ مگر آج کے بعد شاید وہ بات نہیں رہے گی۔ آپ کو آزادی کی لذت بھی ملے گی اور جو آپ کی بنیادی سوچ رہی ہے اسی کے مطابق کام کرنے کا آپ کو موقع ملے گا۔
Published: undefined
اس طرح انھوں نے اشاروں اشاروں میں انھیں ایک ایسا ڈپلومیٹ یا ایسا شخص ثابت کرنے کی کوشش کی جس نے ایک خاص ماحول میں زندی گزاری جس کی وجہ سے اس کی سوچ کا دائرہ محدود ہو گیا یعنی وہ صرف مسلمانوں کے بارے میں ہی سوچنے لگا۔ اس وقت پارلیمنٹ میں تو اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کی گیا لیکن بعد میں مودی کی اس تقریر پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ دراصل حامد انصاری کا ایک مسلمان ہونا، کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی جانب سے نائب صدر بنایا جانا اور فسطائیت کی مخالفت اور سیکورلزم اور اس کے اصولوں پر ڈٹے رہنا اور بغیر کسی جھجک کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا نہ مودی سے ہضم ہوا اور نہ ہی بی جے پی اور آر ایس ایس سے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ انھوں نے اس تقریب سے ایک روز قبل ہی بحیثیت نائب صدر ایک بڑا انٹرویو دیا تھا جس میں انھوں نے ملک کے اس وقت کے ماحول پر گفتگو کی تھی اور مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس پر اظہار تشویش کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت ملک پر ایک طرح کی جو قوم پرستی تھوپی جا رہی ہے وہ غیر ضروری ہے۔ انھوں نے تکثیریت کی اقدار پر زور دیا تھا جو کہ روایتی طور پر ہندوستانی قوم پرستی کی بنیاد ہے۔ تاہم انھوں نے حکومت یا وزیر اعظم پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے اشاروں اشاروں میں جو باتیں کہی تھیں اس کی زد اس وقت کی حکومت پر پڑ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں ان پر نکتہ چینی کی اور طنز و تشنیع کے تیر چلائے۔
Published: undefined
ابھی چند روز قبل ایک بار پھر حامد انصاری کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کے ایک صحافی نصرت مرزا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے یو پی اے کے دور حکومت میں 2005 سے 2011 کے درمیان کئی بار ہندوستان کا دورہ کیا اور ہاں کے حساس راز پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو پاس کیے۔ اس دعوے کی بنیاد پر بی جے پی نے حامد انصاری پر حملہ بول دیا اور یہ الزام لگا دیا کہ انھوں نے ہی نصرت مرزا کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جبکہ حامد انصاری نے ایک بیان جاری کرکے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ وہ نصرت مرزا کو نہیں جانتے۔ اور یہ کہ غیر ملکی شخصیات کو وزارت خارجہ کی جانب سے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس میں ان کا کوئی رول نہیں ہے۔ لیکن بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ نے یہاں تک الزام لگا دیا کہ حامد انصاری نے نصرت مرزا کو مدعو کرکے ملک کے حساس راز سے ان کو واقف کرایا۔ کانگریس نے اسے ایک بدنام کرنے والی کہانی قرار دیا ہے اور اس الزام کی مذمت کی ہے۔
Published: undefined
متعدد سابق سفارت کاروں نے حامد انصاری کے بے داغ کردار کی تائید کی اور کہا کہ وہ کئی دہائیوں تک ایک کامیاب سفارت کار رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی قابل قدر خدمات سے ملک کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ان کے اوپر جو الزام لگایا جا رہا ہے وہ ان کو بدنام کرنے والا اور ان کی ایمانداری اور حب الوطنی پر شک کرنے والا ہے۔ سابق سفارت کاروں نے ان کے خلاف اس بے بنیاد الزام تراشی کی سختی سے مذمت کی ہے۔ خود پاکستان کے کئی صحافیوں نے نصرت مرزا کے بیان کی مذمت کی اور اسے بے بنیاد قرار دیا۔ ایک صحافی کا یہاں تک کہنا ہے کہ نصرت مرزا نے پندرہ منٹ کی شہرت کے لیے بے بنیاد باتیں کی ہیں۔ جبکہ ایک سابق فوجی عہدے دار کا کہنا ہے کہ نہ تو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اتنی نااہل ہے کہ اسے ایک صحافی کی مدد لینی پڑے اور نہ ہی ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ”را“ اتنی نااہل ہے کہ وہ نصرت مرزا کو یہاں کے راز بے روک ٹوک حاصل کرنے کی اجازت دیتی۔
Published: undefined
یہ کتنی بڑی شرم کی بات ہے کہ بی جے پی نے پاکستان کے ایک صحافی کے الزام کو سچ مان لیا اور اپنے ملک کے ایک سابق سفارت کار اور نائب صدر کی باتوں کو غلط مانا۔ حالانکہ یہ وہی نصرت مرزا ہیں جو ہندوستان اور یہاں کی حکومت کی ہمیشہ نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں وہ پاکستان کا راگ الاپتے اور ہندوستانی موقف کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اگر بی جے پی اور موجودہ حکومت کو نصرت مرزا اتنے ہی قابل بھروسہ لگ رہے ہیں تو وہ ان کی اور بھی باتیں کیوں نہیں مان لیتی۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کے خلاف ان کی بے بنیاد باتیں نہیں مانی جا سکتیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کانگریس کا کوئی لیڈر کسی دوسرے ملک کے کسی شخص کے انکشاف پر یہاں کی حکومت سے سوال کرتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے اپنی حکومت اور اپنی فوج پر بھروسہ نہیں ہے۔ لیکن جب وہ خود پاکستانی صحافی کی ایک بے بنیاد بات پر یقین کر رہی ہے تو وہ محب وطن ہو گئی۔
Published: undefined
دراصل بی جے پی اور موجودہ حکومت کی جانب سے شروع سے ہی کانگریس اور سرکردہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی غلط کاریوں کی گرفت اگر کوئی پارٹی کر سکتی ہے تو وہ کانگریس ہی ہے۔ اس لیے کانگریس پر بے بنیاد الزامات لگا کر اس کو اس قدر بدنام کر دو کہ اس پر سے عوام کا بھروسہ ہی اٹھ جائے۔ لہٰذا ایک بار پھر جبکہ مختلف مسائل پر حکومت سوالوں کے گھیرے میں ہے اور اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا ہے تو ایک بار پھر محمد حامد انصاری کو ایک آسان ٹاگیٹ مان کر ان پر حملہ کر دیاگیا اور اس کی آڑمیں کانگریس کو بدنام کرنے کی مہم پھر شروع کر دی گئی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز