فکر و خیالات

کسی گھر پر بلڈوزر چلنے سے پورا خاندان اور قبیلہ برباد ہو جاتا ہے... حمرا قریشی

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا جب اس ملک کے ذمہ دار اور بیدار شہری گھروں اور پورے خاندان کی تباہی کو روکنے میں اہم کردار نبھائیں؟

<div class="paragraphs"><p>بلڈوزر ایکشن / آئی اے این ایس</p></div>

بلڈوزر ایکشن / آئی اے این ایس

 

اتر پردیش سے یکے بعد دیگرے ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں جو بڑھتی فرقہ واریت کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ حالات تشویشناک ہیں۔ حیران کر دینے والی معلومات سامنے آ رہی ہیں، جو کہ خطرناک سیاسی سازشوں کا پیش خیمہ ہیں۔ اس تباہی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ دائیں بازو کی تنظیموں سے منسلک افراد ہیں، جنھیں سیاسی حکمراں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

بہرائچ اس وقت توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں کی مسلم آبادی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مسلم گھروں اور املاک پر برسرعام حملے ہو رہے ہیں اور ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ اتر پردیش میں بہرائچ واحد جگہ نہیں ہے جہاں مسلمانوں کو شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہندوتوا بریگیڈ کی طرف سے مسلمانوں کو ہدف بنا کر کیے جانے والے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ جیسے جیسے فرقہ وارانہ ہتھکنڈے زور پکڑ رہے ہیں، مسلم طبقہ کو برسرعام ہدف بنانے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

Published: undefined

میں ایک مسلم ہوں اور اتر پردیش سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں نے بچپن میں کافی وقت بہرائچ میں گزارا کیونکہ میرے نانا بہرائچ میں زیر ملازمت تھے۔ ہم وہاں گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں گزارنے جاتے تھے۔ مجھے وہ شہر اچھی طرح یاد ہے۔ اکثر بیٹھ کر ان سبھی کو یاد کرتی ہوں جن سے میری وہاں ملاقات ہوئی تھی۔ چونکہ مسلمانوں کو ہدف بنا کر تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں، ایسے میں مجھے مکمل یقین نہیں کہ وہ اب اس جگہ ہیں بھی یا نہیں، یا پھر ان کے بچے اور پوتے پوتیاں وہاں رہتے ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے سیاسی حکمرانوں کی چوکس نظر مسلمانوں پر ہے، اور اچھی طرح تربیت یافتہ و جدید آلات سے مزین فرقہ پرست بریگیڈ چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے محلے، بستی یا گاؤں میں رہنے والے لوگوں سے پریشان نہیں ہے۔ وہ تو دائیں بازو کے ان سیاستدانوں سے پریشان ہیں جو فرقہ واریت کا زہر پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ نادانوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے ہیں اور دلوں میں نفرت بھرتے ہیں۔ ممکنہ ہے فرقہ پرست ذہنیت والے سیاسی لیڈران کے ذریعہ تیار پرائیویٹ سیناؤں (گروپ) میں سینکڑوں افراد ایسے ہوں گے جن کا استعمال نفرت پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ پہلے سے ہی دہشت زدہ لوگوں کو مزید دہشت میں ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

Published: undefined

میں حیرت میں ہوں کہ جب بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پولیس فورس ان کی مٹھی میں ہے تو پھر پرائیویٹ سیناؤں کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ان سیناؤں میں بھرتی ہونے والے لوگ کون ہیں؟ ان کی تربیت کون کرتا ہے؟ اور کس لیے؟ اس خطرناک حقیقت پر کوئی سوال کیوں نہیں پوچھتا؟ کیا ہندوتوا کے علمبردار سیاستدانوں میں سے کسی سے بھی ان کے پرائیویٹ بریگیڈ، سینا یا تنظیموں سے متعلق سوال کیا گیا ہے؟

یہ انتہائی سنگین صورت حال ہے۔ مسلم طبقہ اپنے مستقبل کے تئیں فکر مند ہے۔ واحد راحت والی بات یہ ہے کہ سیکولر اور روادار ہندوؤں نے بولنا شروع کر دیا ہے، یہ اشارہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ اگر مسلمانوں اور ان کے گھروں کو ہدف بنانا فوراً بند نہیں کیا گیا تو خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ وزراء اور سرکاری حکام اپنے سرکاری بنگلوں میں محفوظ رہیں گے، لیکن سڑکوں اور گلیوں میں رہنے والے عام لوگ تشدد کی وجہ سے پیش آنے والے حادثات کی زد میں آئیں گے۔

Published: undefined

یوں تو فرقہ وارانہ ایجنڈے کو پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھانے والے دائیں بازو کے سیاستدانوں سے کوئی امید نہیں کی جا سکتی، لیکن سینئر یا سبکدوش سرکاری ملازمین سے غیر جانبدارانہ بیانات کی امید ضرور کی جانی چاہیے۔ انھیں ایسے ایماندار اور سیکولر افسران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو ان لوگوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جنھیں ہدف بنا کر حملہ کیا جاتا ہے۔ لیکن شاید سیاسی احکامات انھیں اس غیر جانبداری سے روکتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انتظامیہ کی مشینری اور پولیس فورس بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر برسراقتدار طبقہ کے کنٹرول میں ہیں۔

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا جب اس ملک کے بیدار شہری گھروں اور پورے خاندان کی تباہی کو روکنے میں اہم کردار نبھائیں؟ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک بار جب کسی گھر پر بلڈوزر چلتا ہے تو یہ پورے کنبہ یا قبیلہ کو تباہ کرنے جیسا ہوتا ہے۔ بلڈوزر نہ صرف مکان کو منہدم کرتا ہے بلکہ ان کی روز مرہ کی زندگی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ گھر منہدم ہونے سے ایک کنبہ کا انتہائی ضروری بنیاد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بلڈوزر چل جانے سے بچوں کی اسکولی کتابیں اور یونیفارم و کپڑوں کے ساتھ ساتھ باورچی خانہ کا وجود بھی نہیں رہتا... ساتھ ہی آگے بڑھنے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ پورا خاندان اور قبیلہ برباد ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

سیاسی حکمرانوں کی روش کا اندازہ چار اہم طبقات کے ساتھ کیے جانے والے ان کے سلوک سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ طبقات ہیں خواتین، بچے، جیل میں بند لوگ اور اقلیتی برادری۔ آج کے حکمراں اپنی مصنوعی تقریروں میں طرح طرح کی حصولیابی کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو قطعی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کی حالت مایوس کن ہے۔ یہ صورت حال اگر خوفناک اور حیران کرنے والا نہیں تو فکر انگیز ضرور ہے۔ جیل میں بند لوگوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جیل میں بند لوگ اونچی دیواروں کے پیچھے بہت دب کر بیٹھے ہیں۔ لیکن جیل سے باہر رہنے والے لوگ دردناک حالات سے گزر رہے ہیں تو پھر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جیل میں بند لوگوں کی حالت کیا ہوگی۔

اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی ہزاروں خواتین، بچے اور مرد لاپتہ ہیں۔ آخر وہ کہاں ہیں؟ انھیں کون تلاش کرے گا؟ اور کب؟ یہ بھی پریشان کن حقیقت ہے کہ بچے نقص تغذیہ کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سے ان کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں جب کئی گھروں پر بلڈوزر چلے گا تو خط افلاس کا گراف یقینی طور سے عروج پر پہنچ جائے گا، جو ہمارے بچوں کی صحت اور بقا کو متاثر کرے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined