فکر و خیالات

ہم اس بدتر حالت کو ختم کرنے کے لیے آواز بھی نہیں اٹھاتے… حمرا قریشی

جس طرح کی جنگ جاری ہے اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ مشرق وسطیٰ کے لیے بھی فکر انگیز ہو سکتا ہے، سیاسی جال اور فوجی طاقت دن بہ دن زمینی دائرہ بڑھاتی جا رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>بیروت میں پیجر دھماکوں میں جان بحق لیڈر جنازہ / Getty Images</p></div>

بیروت میں پیجر دھماکوں میں جان بحق لیڈر جنازہ / Getty Images

 

یقیناً جنگ میں پھیلاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے… ہدف کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، یہ بڑھتے ہوئے فلسطین کی سرحدوں سے لبنان کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ بیروت اور لبنان کے کئی حصوں میں جس طرح الیکٹرانک آلات دھماکوں کے شکار ہوئے، یہ دھماکوں کی دوسری لہر تھی۔ اس سے قبل سینکڑوں پیجرز میں دھماکے ہوئے تھے اور پھر ایک دن بعد واکی ٹاکی، حتیٰ کہ سولر آلات کو بھی ہدف بنا کر دھماکے کیے گئے۔ ان دھماکوں میں کئی شہری مارے گئے، کئی زخمی ہوئے اور کئی کو صدمہ لاحق ہوا۔ عام شہریوں میں اب شدید بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے، کیونکہ وہ ان حملوں کو مبینہ طور پر اسرائیلی فوج کی طرف سے شروع کی گئی جنگ کی نئی شکل تصور کر رہے ہیں۔

جس طرح کی جنگ جاری ہے، اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ مشرق وسطیٰ کے لیے بھی فکر انگیز ہو سکتا ہے۔ سیاسی جال اور فوجی طاقت دن بہ دن زمینی دائرہ بڑھاتی جا رہی ہے، اس سے نہ صرف مغربی کنارے اور مشرق وسطیٰ کے اندر حالات بدتر ہو رہے ہیں، بلکہ ارد گرد کے سینکڑوں بے گناہوں کو بھی پریشانی لاحق ہے… بلکہ یہ دائرہ اس سے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔

Published: undefined

بہرحال، ہم اس سنگین صورت حال کے بنیادی حقائق پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ہم اونچی آواز میں بولنے کے بعد جو نتائج حاصل ہوتے ہیں، اس سے متفکر ہیں۔ کچھ سال قبل کی ہی بات ہے جب دہلی میں ہیومینٹیرین (انسانی ہمدردی) کے روایتی قانون پر منعقد ایک بین الاقوامی اجلاس کے دوران میرا تعارف ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کے پروفیسر سے ہوا۔ اس ملاقات سے ٹھیک پہلے اجلاس میں تقریروں کا ایک سلسلہ سننے کو ملا جس میں بتایا گیا کہ اس صدی میں رہنے والے انسانوں کے پاس ان کے ساتھ ہوئی ناانصافی یا ظلم کے لیے کون سے ’عظیم قانونی علاج‘ دستیاب ہیں۔ میں نے اسی پس منظر میں اس پروفیسر سے دنیا میں ہونے والی بڑی ناانصافیوں کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے تھے۔ سوال اس ضمن میں تھا کہ طاقتور ملک اپنی بے قابو فوجی طاقت کے مطابق کسی بھی بہانے چھوٹے ملک میں داخل ہو سکتا ہے، اور پھر شہری آبادی کو ہلاک و برباد کرنا شروع کر دیتا ہے، اسے دہشت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور پھر پروفیسر کے چہرے پر نمودار ہونے والی حیرانی دیکھنے لائق تھی۔ گویا اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ ہو رہا ہو۔ ان کے چہرے پر حیرت کے نشانات صاف ظاہر ہو رہے تھے، پھر وہ جلدبازی میں کہتے ہیں ’’یقیناً آپ مجھ سے اس قسم کے سوالوں کے جوابات کی توقع نہیں کریں گی! آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ ایسی گفتگو میرے اور آپ کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے!‘‘

Published: undefined

آج مشرق وسطیٰ کے خطوں میں انارکی اور تشدد کے ساتھ ساتھ قتل و غارت کو دیکھنا خوفناک ہے۔ اس سے بڑے سانحات سامنے آ سکتے ہیں، اور اس سے بڑے مسائل رونما ہوں گے۔ یقینی طور پر مہاجرت ایک بڑا بحران ہے جو یورپ تک پھیل رہا ہے۔ یہ بحران بڑے ممالک کے ذاتی مفادات کی طرف سے مشتعل کردہ داخلی کشمکش اور خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔

موجودہ حالات میں جب عراق، شام، لیبیا، فلسطین اور اس کے آس پاس والے علاقوں میں بمباری و خود کش حملے تباہی کا بازار گرم کر رہے ہیں، ہم سبھی بہت دب کر اور خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سوچ رہے ہیں کہ ان ہلاکتوں کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ ہو رہی منظم بمباری کے پس پشت کون ہے؟ پردے کے پیچھے وہ کون ہے جو تخریب کاری کا ذمہ دار ہے؟ حکومتیں اور عالمی لیڈران لب کشائی کیوں نہیں کر رہے؟ اکثر انسانوں پر ہو رہی بربریت اور مظالم کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ہم اس بدتر حالت کو ختم کرنے کے لیے آواز بھی نہیں اٹھاتے۔

Published: undefined

اب آپ گزشتہ ہفتے کے وسط میں آئی اس نئی رپورٹ پر ہی غور فرمائیے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ ایسا اس لیے کیونکہ 193 رکنی اس باڈی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں اپنی موجودگی 12 ماہ کے اندر ختم کرے۔ اس قرارداد کے حق میں 124 ووٹ پڑے، جبکہ مخالفت میں 14 ووٹ ہی حاصل ہو سکے۔ 43 ممالک اس ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined