وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں سال 2002 کے دوران منصوبہ بند طریقے سے پھیلا ئی گئی نفرت کا زہر اب بھی اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے اوراس کاسب سے زیادہ شکار مسلمان ہو رہے ہیں جن کے لئے صوبے کی راجدھانی احمد آباد میں گھر خرید کر رہائش کا انتظام کرنا دشوار گزار ہے۔ احمد آباد کا شاہ پور علاقہ تنگ و تاریک گلیاں، ایک دوسرے میں گھسے ہوئے مکان، خراب سڑکیں، پرانی اور ویران عمارتیں اور سڑک کے کنارے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مندر کا منظر پیش کرتا ہے۔ شاہ پور، کالو پور اسمبلی حلقے میں آتا ہے۔ اس علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق گجرات میں تقریباً ساڑھے 58 لاکھ مسلمان ہیں جبکہ ہندوؤں کی آبادی 5.35 کروڑ ہے۔
گجرات کے کشیدگی والے علاقوں میں جائیداد کی فروخت یا منتقلی پر پابندی عائد ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اسی قانون کی وجہ سے اس علاقے کی آبادی اتنی گنجان ہے۔اس قانون کا اثر پراپرٹی کے تمام معاملات پرنظر آتا ہے اور خاص طور پر اگر یہ معاملہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہے تو اس کا نفاذ اور بھی سختی سے کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت کشیدگی والے علاقوں میں ضلع مجسٹریٹ کے پاس جائیداد کی خرید و فروخت کو اپنے ڈھنگ سے منضبط کرنے کا حق ہے۔ اسی قانون کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس زمین اور جائیداد خریدنے کے اختیارات محدود ہیں اور ان کے لئے کشیدہ ماحول والے علاقوں میں جائیداد خریدنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
احمد آباد میں مجموعی طور پر 770 علاقوں کو کشیدہ قرار دیا گیا ہے اور ان میں سے 167 علاقے صرف شاہ پور میں آتے ہیں جبکہ پوری ریاست میں کشیدگی والے علاقوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔یہ قوانین عموماً فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت کو منضبط کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے علاقوں میں املاک کی خرید و فروخت سے قبل ضلع مجسٹریٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد ہی مالکانہ حق کی منتقلی ہو سکتی ہے۔احمد آباد میں فصیل کے اندر آنے والا قدیم اور مشترک علاقہ حساس علاقوں میں آتا ہے۔ یہاں آج بھی صدیوں پرانے گھر موجود ہیں۔ ہندوؤں کے لئے ان تنگ گلیوں میں گھر خریدنا آسان ہے لیکن مسلمانوں کے لئے انتہائی مشکل۔ حالات ایسے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے دوگنی رقم بھی پیش کی جاتی ہے تب بھی ان کے لئے ایک گھر خریدنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک مقامی رضاکار علیم الدین صدیقی بتاتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ خریدار کا مذہب دیکھ کر ہی جائیداد کے دام بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی گنجان آبادی والے کشیدہ علاقے میں ہندو ایک کمرے کا گھر پانچ لاکھ روپے میں خرید سکتا ہے جبکہ اسی گھر کو خریدنے کے لئے کسی مسلمان کو دس لاکھ روپے ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان مہنگی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار بھی ہو جائے تب بھی اس کے لئے گھر خریدنا آسان نہیں ہے۔ شاہ پور کی اوانیکا سوسائٹی کے پاس ہونے والے ایک سودے کی مثال دیتے ہوئے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ45 سالہ متیش شاہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی مکان کو ایک ہندو خریدار کے لئے 36 لاکھ روپے میں طے کر لیا تھا لیکن کچھ مسلمان خریدار اسی مکان کو 70 لاکھ روپے تک میں خریدنے کے لئے تیار تھے۔ ان علاقوں میں ہندو فرقہ پرست تنظیموں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا بھی گہرا اثر ہے اور ہندو خاندان مسلمانوں کو اپنا گھر فروخت کرنے سے ڈرتے ہیں۔
یہاں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس گھر خریدنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔ روایتی طور پر وہ پرانے احمد آباد میں ہی گھر تلاش کرتے ہیں یا پھر گنجان مسلم آبادی والے علاقوں میں جاتے ہیں۔غیر مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے مکان زمین خریدنے کے مواقع نہ کے برابر ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کے مکان خریدنے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ کلیم کہتے ہیں کہ قانون میں تو مذہبی تفریق نہیں ہے لیکن اس سے متاثر صرف مسلمان ہی ہیں۔ یہاں ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ اگر کوئی مسلمان غیر مسلم علاقے میں مکان خرید بھی لے تو وہاں رہ نہیں پاتا۔
55 سالہ گلزار مومن رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہیں۔ شاہ پور کے ون ماولیکا نیپولے کے علاقے میں ان کا گھر ہے۔ مومن اس علاقے میں رہنے والے واحد مسلمان ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ گھر خریدنے کے فوراً بعد ان پر وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے حملہ کیا۔ مومن اپنے گھر کو فروخت یا کسی کو کرائے پر دینا چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وشو ہندو پریشد کے رہنما کسی مسلمان کو اسے دیئے جانے کے سخت خلاف ہیں۔مومن کا کہنا ہے کہ پولس نے یقینی طور پر مداخلت کی ہے لیکن درمیان کے کچھ لوگوں نے ان پر پولس سے شکایت نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کا مالک ہونے کے باوجود میں اپنی پسند کے خریدار کے ہاتھوں اسے بیچنے سے قاصر ہوں۔
Published: 05 Oct 2018, 5:06 PM IST
دوسری طرف وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری اشون پٹیل کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کھانا پینا اور طرز زندگی ہندوؤں سے مختلف ہے اور اس کی وجہ سے ہندوؤں کو پریشانی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کو سوسائٹی میں گھر خریدنے دیا گیا تو اس کے بعد دوسرے مسلمان بھی یہاں گھر خریدنے لگیں گے اور ہندوؤں کو اپنا علاقہ چھوڑ کر جانا پڑے گااور ہم اپنے علاقوں میں یہ نہیں ہونے دیں گے۔اس کے برعکس ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں پریشان مسلمانوں نے اپنے ہندو دوستوں کی مدد سے گھر خریدا ہے۔ عمران ناگوری چار بھائیوں میں سے ایک ہیں اور انھیں علیحدہ مکان کی ضرورت محسوس ہوئی۔وہ کہتے ہیں کہ میرے لئے اپنے نام پر پراپرٹی خریدنا مشکل تھا کیونکہ ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینے میں دقت آ رہی تھی اس لئے میں نے اوانیکا سوسائٹی میں اپنے ایک ہندودوست کے نام پر 32 لاکھ روپے میں گھر خریدا۔وہ کہتے ہیں کہ جب پڑوسیوں کو پتہ چلا تو ہنگامہ ہوا اور پولس نے بھی مجھے پریشان کیا۔انہوں نے بتایاکہ میں نے جائیداد پر 32 لاکھ روپے خرچ کئے لیکن مجھے اس کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیا جاتا۔ میں یہ پراپرٹی کسی مسلمان کو نہیں بیچ سکتا کیونکہ پڑوسیوں کا دباو ہے اور وہ میرے اس گھر کو کوڑیوں کے دام خریدنا چاہتے ہیں۔اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مسلم نوجوان نے بتایا کہ انھوں نے بھی اپنے ایک ہندو دوست کے نام پر پراپرٹی خریدنے کی کوشش کی لیکن جب وی ایچ پی کے لوگوں کو پتہ چلا تو ان لوگوں نے اس نوجوان پر حملہ کر دیا۔
شاہ پور علاقے میں کام کرنے والے مسلم رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے مطابق کشیدہ علاقے میں پریشد اور بجرنگ دل کا ایک نیٹ ورک ہے جس میں جائیداد کی خریدو فروخت کی نگرانی کی جاتی ہے۔وی ایچ پی کے رہنما اشون پٹیل کا کہنا ہے کہ ان کے کارکن جائیداد کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی مسلمان ہندوؤں کے علاقے میں گھر نہ خرید سکے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا کچھ حد تک غلط استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
Published: 05 Oct 2018, 5:06 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Oct 2018, 5:06 PM IST
تصویر: پریس ریلیز