فکر و خیالات

اردو صحافت کے200 سال: ’ہمارے بھی بال و پر تھے ابھی کل کی بات ہے‘

سائنسی ترقی نے اردو صحافت کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا ہے کہ وہ صرف ملک گیر نہیں بلکہ عالم گیر پیمانے پر اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ’ہمارے بھی بال و پر تھےابھی کل کی بات ہے‘۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو اور اردو صحافت نے ہندوستان کی ترقی اور انگریزوں سے اس کی آزادی میں زبردست کردار ادا کیا ہے لیکن بد قسمتی سے آج اس کا یہ کردار محدود ہوتا جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو کو جہاں ایک طبقہ سے جوڑ دیا گیا ہے وہیں وہ طبقہ اس سے خود کو جڑا رہنے میں اپنی بے عزتی محسوس کرتا ہے۔

Published: undefined

ویسے تو اگر آپ کوئی بھی دوسری زبان جانتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ آپ کو اضافی عزت ملتی ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی صحافتی دنیا میں اگر آپ اردو کے صحافی ہیں اور آپ انگریزی سمجھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں تو آپ کو اضافی عزت و احترام ملنا یقینی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انگریزی اردو سے اچھی ہے یا یہ کوئی معیوب بات ہے کہ آ پ اردو کے صحافی ہیں ، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو اخبار کے قاری محدود ہیں اور ان کا تعلق ایک خاص طبقہ سے ہےجس کی وجہ سے اردو اخبار کے مالکان کے پاس وسائل نہیں ہیں کیونکہ وسائل کے لئے سرکولیشن کا ہونا بہت ضروری ہےاور سرکولیشن کا تعلق اشتہار سے بھی سیدھا ہے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری ستح اور کارپوریٹ گھرانوں میں فیصلہ لینے والے لوگوں کی نظر میں صرف وہی قابل ہے جسے انگریزی پر عبور حاصل ہے۔

Published: undefined

یہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت کے مسائل دوسری زبانوں کے مسائل سے بالکل جدا ہیں ۔ آج کے دور میں جہاں سرکولیشن ، ٹی آ ر پی اور ناظرین کی تعداد کا ذرائع ابلاغ کے کسی بھی پلیٹ فارم سے سیدھا رابطہ ہوتا ہے ۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شائع ہونے والی خبروں یا یو ٹیوب چینل کے ذریعہ خبریں اور رائے دینے والوں کو گوگل سے مالی تعاون ملتا ہے اور اس کا سیدھا تعلق ہے کہ کتنے لوگ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی خبر کو دیکھتے ہیں یا یو ٹیوب چینل پر سنتے ہیں ۔اسی طرح پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار دینے کے لئے سرکولیشن اور ٹی آ ر پی کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔ اردو صحافت ان تمام تقاضوں کو پورا کرتے وقت کہیں نہ کہیں پچھڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے نہ تو مالی معاونت مل پاتی ہے اور نہ اشہار کے دروازہ کھل پاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اردو کے اخبار مالکان اردو صحافیوں کو انگریزی کے مقابلہ میں بہت کم تنخواہیں دے پاتے ہیں جس کے نتیجے میں اردو کا صحافی ایک مترجم بن کر رہ جاتا ہے جس کو انگریزی یا دوسری زبان میں شائع خبر کو ترجمع کرنا پڑتا ہے اور بد قسمتی سے وہ اسی کو صحافت سمجھ لیتا ہے۔

Published: undefined

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر چیز کا تعلق پیسے سے ہے لیکن اردو صحافت کو ایک اور بڑی پریشانی کا سامنا ہے ۔ اردو اخبار میں شائع خبر کو اردو والوں کے علاوہ نہ کوئی پڑھ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ تو کوئی افسر خبریں دینے میں تعاون کرتا ہے ، افسران جو خبروں کا ذریعہ ہو تے ہیں ان کی ترجیح انگریزی زبان ہوتی ہے ۔ جب اخبار میں اچھی خبر نہیں ہوگی تویہ فطری بات ہے کہ اردو جاننے والا بھی انگریزی اور ہندی اخبار ضرور پڑھے گا اور دھیرے دھیرے اس کی اردو اخبار سے دوری بننے لگے گی۔ اخبار کی جان خبر ہوتی ہے اور خبر کا ذریعہ وہ ہوتے ہیں جن کو اس زبان پر عبور حاصل ہو تا ہے جس میں خبر شائع ہو رہی ہے۔اردو اخبار اور اردو کے صحافی کے لئے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔

Published: undefined

اردو اخبارات ان سیاسی کارکنان ، سیاسی رہنماؤں ، اردو ادیب و شاعر اور اردو سے تعلق رکھنے والے کارپویٹ گھرانوں کی خبریں نمایا طور ر شائع کرتے ہیں کیونکہ یہی طبقہ پڑھتا ہے اور اسی خبر پر ان کو رد عمل بھی حاصل ہوتا ہے۔اس وجہ سے اردو صحافی اور اردو اخبارات کی افادیت سب سے زیادہ انتخابات میں محسوس کی جاتی ہے کیونکہ اردو جاننے والے طبقہ کو راغب کرنے کے لئے ان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

Published: undefined

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں اردو اور اردو صحافت پریشانیوں کے دور سے گزر رہی ہے لیکن اگر اردو جاننے والا طبقہ کچھ فیصلے کر لے تو صبح ضرور آئے گی۔ اردو والوں کو سب سے پہلے خود کو احساس کمتری سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے بچوں کے ساتھ دیگر طبقوں میں بھی اردو کے فروغ کے لئے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا ۔ آپ اپنے بچوں کو انگریزی ضرور پڑھائیں کیونکہ یہ زبان آج کی دور میں روزگا ر اور کاروبار سے جڑی ہوئی ہے لیکن بچوں کو اردو سے دور نہ کریں ۔ اس کے ساتھ اس زبان کے فروغ کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں جو آج کے دور میں بہت آسان ہو گیا ہے کیونکہ گوگل ٹرنسلیشن اور گوگل پر بولنے سے ٹائپنگ ہو جاتی ہے۔

Published: undefined

اس دور میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ صحافت میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں اور اردو والوں کو ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب صحافتی دنیا میں پرنٹ میڈیا کا دبدبا کم ہو گیا ہے اور اب صحافت کا سفر الیکٹرانک میڈیا سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا کی جانب بہت تیزی سے گامزن ہے ۔ اس تبدیلی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب سرکولیشن دکھانے اور ٹی آر پی کا کھیل کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس میں ناضرین اور قاری کی تعداد صاف ظاہر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے گوگل اور دیگر کارپوریٹ گھرانے اپنی اشیاء کو فروغ دینے کے لئے اس حقیقی تعداد سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کےفروغ کے لئے اردو والے جتنا کام کریں گے اس سے نہ صرف اردو بلکہ اردو صحافت کو فروغ ملے گا۔ اردو کے فروغ کے لئے اردو والوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمس جیسے فیس بک، ٹویٹر ،وہاٹس ایپ وغیرہ پر اردو کا استعمال کرنا چاہئے ۔ سائنسی ترقی نے اردو صحافت کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا ہے کہ وہ صرف ملک گیر نہیں بلکہ عالم گیر پیمانے پر اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ’ہمارے بھی بال و پر تھےابھی کل کی بات ہے ‘۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined