ہندوستان میں مندر-مسجد تنازعہ بھڑکانے والوں اور فرقہ واریت کی تشہیر کرنے والوں سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ آپ تاریخ کی ان کئی سچائیوں کے بارے میں کیوں خاموش ہو جاتے ہیں، جن سے بھائی چارے اور صبر کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ کیا یہ لوگ تاریخ کا مطالعہ صرف نفرت پھیلانے کی مثالیں تلاش کرنے کے لیے کرتے ہیں؟ اگر تاریخ کو غیر جانبدار طریقے سے پڑھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ دورِ وسطیٰ کے ہندوستان میں کئی ہندو تیرتھ مقامات کو مسلم حکمراں کا تحفظ اور امداد حاصل ہوا۔ ان تیرتھ مقامات کی ترقی میں اس امداد کا اہم تعاون حاصل تھا۔ ان میں متھرا-ورنداون، ایودھیا، چترکوٹ سمیت کئی اہم ہندو مذہبی مقامات شامل ہیں۔
Published: undefined
متھرا-ورنداون علاقہ: اس علاقے کے تقریباً 35 مندروں کے لیے مغل حکمراں اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں سے مدد ملتی رہی۔ اس کے دستاویز آج تک دستیاب ہیں۔ تقریباً 1000 بیگھہ زمین کا انتظام ان مندروں کے لیے کیا گیا تھا۔ ان دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان مندروں کے طرح طرح کے مسائل کا حل نکالنے میں مغل حکمرانوں اور ان کے افسران نے بہت دلچسپی دکھائی۔
Published: undefined
ورنداون اور متھرا کے مندروں سے مغل حکمراں کے قریبی تعلقات کے بارے میں یہاں کے مندروں سے کئی اہم دستاویزات حاصل ہوئے ہیں۔ ایسے 50 سے زائد دستاویزوں کی بنیاد پر دو مشہور مورخین تاراپد مکرجی اور عرفان حبیب نے اپنے ایک مطالعہ میں بتایا ہے کہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں نے نہ صرف ان مندروں کی مدد کے لیے بہت ساری زمین دی تھی بلکہ مندروں کے مینجمنٹ میں پیدا جھگڑوں کو سلجھانے میں، مندروں کے ٹھیک رکھ رکھاؤ میں اور مندروں کے خادموں کے مسائل کو سلجھانے میں ان کی اور ان کےا فسران کا اہم کردار رہتا تھا۔
Published: undefined
متھرا علاقہ میں مندروں اور مندروں کے خادموں کے لیے مغل ریاست کی طرف سے دی جانے والی مدد کو منظم کرنے کے لیے بادشاہ اکبر نے کئی فرمان جاری کیے۔ پہلی بار 27 اگست 1598 کو اور دوسری بار 11 ستمبر 1598 کو۔ ان فرمانوں کے ذریعہ ورنداون، متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقے کے 35 مندروں کے لیے 1000 بیگھہ زمین کا انتظام کیا گیا۔ جہانگیر نے اس امداد کو جاری رکھا۔ کچھ مندروں کے بارے میں امداد کے انتظام کو اس نے مزید پختہ کر دیا۔ دو نئے مندروں کے امداد کا انتظام اس نے کیا۔ اس کے علاوہ نجی سطح پر اس علاقے کے کئی مذہبی اشخاص کی امداد کے لیے بھی جہانگیر نے الگ سے 121 بیگھہ زمین کا انتظام کیا۔
Published: undefined
مندروں کے پجاریوں، منتظمین وغیرہ میں وقت وقت پر تنازعہ بھی پیدا ہو جاتے تھے۔ اس حالت میں عموماً وہ مغل حکمراں یا افسران کے پاس جھگڑے کے اطمینان بخش حل کے لیے جاتے تھے اور ان کے فیصلے کو مانتے بھی تھے۔ مندروں کے آس پاس کی ہریالی ختم ہونے لگے یا پانی کی تنگی ہو جائے تو اس کے لیے بھی شکایت کی جاتی تھی اور اس کی سماعت بھی ہوتی تھی۔
Published: undefined
ایودھیا: اودھ کے نوابوں اور ان کے افسران نے ایودھیا میں کئی مندر بنوائے، ان کی مرمت کروائی اور ان کے لیے زمین عطیہ کی۔ نواب صفدر جنگ نے ایودھیا میں ہنومان گڑھی پر مندر بنانے کے لیے زمین دی۔ آصف الدولہ کے دیوان نے بھی اس مندر کے لیے امداد دی۔
چترکوٹ: ایک مغل حکمراں نے چترکوٹ میں بالاجی کے مندر کے لیے 330 بیگھہ ٹیکس فری زمین کا انتظام کیا جس کے دستاویز اب تک مندر میں موجود ہیں۔ اسی طرح کے دستاویزات پریاگ، وارانسی، اجین اور گواہاٹی کے مندروں سے بھی ملے ہیں۔
Published: undefined
میسور: ٹیپو سلطان نے اپنے علاقہ میں کئی مندروں کو کھلے دن سے عطیہ کیا۔ ٹیپو سلطان کے محلوں کے پاس ہی وینکٹ رمن، شرینواس اور شری رنگناتھ کو وقف مندر بنے ہوئے ہیں۔
جہانگیر اور شاہجہاں کے دور کے ایسے دستاویزات بھی ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ورنداون اور متھرا کے مندروں میں چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں وہاں کے پجاری فوراً مغل حکمراں سے شکایت کرتے تھے اور انھیں انصاف بھی ملتا تھا۔
Published: undefined
فرقہ وارانہ تنظیم یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلم حکمراں ہندو مذہب اور ثقافت سے دور رہے۔ شاید انھوں نے کشمیر کے راجہ زین العابدین یا بڈ شاہ کا نام نہیں سنا جو عوامی طور پر ہندو تہواروں میں شامل ہوئے اور جنھوں نے کئی مندر بنوائے۔ انھوں نے دکن کے راجہ ابراہیم عادل شاہ دوئم کا نام نہیں سنا جنھوں نے اپنے گیتوں میں کئی بار سرسوتی کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے دکن کے ہی ایک دیگر راجہ علی عادل شاہ کا نام بھی نہیں سنا جنھوں نے بہترین لائبریری قائم کی اور اس میں سنسکرت کے مشہور عالم پنڈت وامن پنڈت کو تقرر کیا۔
Published: undefined
اصل بات یہ ہے کہ سبھی طبقات ایک دوسرے کے مذہبی مقامات کا بھی احترام کریں۔ اپنے مذہبی مقامات کو صفائی، خوبصورتی، فنکاری اور ماحولیاتی تحفظ کے نظریہ سے سنوارا جائے اور دوسروں کے مذہبی مقامات کا احترام کیا جائے تو اس میں سبھی مذاہب کی بھلائی ہے اور قومی اتحاد کی بھی مضبوطی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined