ہندوستان اور پاکستان کے طور پر انڈیا کی تقسیم سے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء یونین کے دفتر میں لگی جناح کی تصویر پر ہندوتووادی اعتراض ظاہر کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ایک واقعہ رونما ہوا کہ ٹیکسی کرایہ پر لینے والے ایک ہندوتووادی نے اس ٹیکسی میں سفر کرنے سے محض اس لئے انکار کر دیا کہ اس ٹیکسی کا ڈرائیور مسلمان تھا۔ اس سے پہلے ایک اخبار نے بحث چلائی جس میں کئی لوگوں نے یہ کہا کہ مسلمان برقع، ٹوپی پہنے جب ایک جگہ ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں تو اس سے ہندوؤں کو ہندوتوا کی طرف راغب کرنے میں ہندوتوواديوں کو کامیابی مل جاتی ہے۔
جب کبھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہم اس پر پر بحث کرنا شروع کر دیتے ہیں، ایسے مباحثے جن کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ گزشتہ 100 سالوں میں معاشرے کے اندر ہندو، مسلمان اور عیسائی مخالف ذہن تیار کرنے کی کتنی بار کوششیں کی گئیں جس کی ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ ان واقعات کا اختتام نہیں ہوگا کیوں کہ اب یہ نظریہ بنا دیا گیا ہے کہ سیاست کی ہندو کاری ہوگی اور ہندوؤں کو عسکریت پسند بنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس بات کی بھی ذہن سازی کر دی گئی کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ اس ملک کے لئے خطرہ ہیں۔ اس نعرے کے تحت ہی ہندو ہر ایک چیز کو ہندو بنام عیسائی، مسلم اور کمیونسٹ کے طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بریانی کو مسلم قرار دیا گیا، ہرے رنگ کو مسلم بنا دیا گیا اور تو اور گرگٹ کو ہندو اور مکڑی کو مسلمان قرار دے دیا گیا۔
اترپردیش کے انتخابات میں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ناموں کے پہلے حروف کو ملا کر ’قصاب‘ بنا دیا گیا، تو گجرات انتخابات کے دوران ہاردک پٹیل، الپش ٹھاکور اور جیگنیش میوانی کے ناموں کے پہلے حروف کو ملا کر’حج‘ بنایا دیا گیا۔ دراصل یہ حربہ اپنے سیاسی حریف کو دشمن کے طور پر پیش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں اندرونی دشمن کو عیسائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تو ملک کے دوسرے حصوں میں مسلمان کے طور پر۔ مغربی بنگال اور کیرالہ میں کمیونسٹ، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
میں 1971 میں واپس لوٹ جانا چاہتا ہوں جب میں نو عمر تھا اور ہر ایک بچے کی طرح اپنے آس پاس موجود چرندوں، پرندوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ مجھے محلہ کے کتے بھی اتنے ہی پیارے تھے جتنی کہ پڑوس میں رہنے والی بڑکی مائی کی بلی۔ میں بلی کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا، کتے کے جب بچے پیدا ہوتے تو اپنی ماں سے ہم حلوا بنواکر ماں بن چکی کتیا کو گرم گرم کھلاتے تھے۔ لیکن اچانک ہمیں اسکول سے دو تین کلومیٹر دور ایک ریلوے جلوس میں لے جایا گیا اور ہم سے نعرے لگوائے گئے۔ یحییٰ خان کی تین دوائی لتّم جوتم اور پٹائی، ہم نے یحیی خان کا پتلا بھی نذر آتش کیا اور پاکستان کی تقسیم کر کے بنگلہ دیش بننے کا خیر مقدم کیا۔ اس وقت فوجی اہلکاروں کی بہادروی کے قصّے ہر زبان پر تھے۔
لیکن اسی بیچ ایک کہانی کے ذریعے ہمیں یہ بتایا گیا کہ کس طرح ایک مکڑی مسلمان ہوتی ہے اور گرگٹ ایک ہندو۔ اس سے اس طرح سے واضح کیا گیا کہ ’بنگلہ دیش میں جب ہندوستانی فوج (کہانی میں بھارت نہیں کہا گیا) پاکستانی فوج کا تعاقب کر رہی تھی پاکستانی فوجی اہلکار اچانک غائب ہو گئے۔ ہندستانی فوجیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک پاکستانی فوجی کہاں غائب ہو گئے۔ دراصل پاکستانی فوجی ایک خلا میں کود گئے تھے اور مکڑی نے اس پر جالا بنا دیا۔ جب ہندوستانی فوجی وہاں پہنچے تو جالا دیکھ کر سوچا کہ پاکستانی فوجی خلا میں ہو ہی نہیں سکتے کیوں کہ اس پر مکڑی نے جالا بن رکھا ہے۔ لیکن پھر ایک گرگٹ نے اپنی گردن ہلا کر ہندوستانی فوجیوں کو اشارہ دیا کہ پاکستانی فوجی اسی خلا میں چھپے ہوئے ہیں، بس پھر کیا تھا ہندوستانی فوجیوں نے جالے کو کاٹ کر پاکستانیوں کو باہر نکالا اور مار ڈالا۔‘
اس کہانی میں مکڑی اور گرگٹ کے بہانے نہ صرف ہمارے دماغ میں ہندو اور مسلمان کی ایک دیوار کھڑی کر دی گئی بلکہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بھی بو دیا۔ اس کے بعد ہم نے مکڑیوں کو مارنے کا پُر تشدد سلسلہ شروع کر دیا۔ ہمارے ہاتھوں میں سنگھ (آر ایس ایس) کا ڈنڈا تو نہیں ہوتا تھا لیکن اس کے تئیں ایک کشش ضرور پیدا کر دی۔ توقیر کے ساتھ پہلے میری ایک دوست کی طرح لڑائی ہوتی تھی لیکن بعد میں اس کے ساتھ ایک ہندو کی طرح لڑنے لگا اور توقیرکو مسلمان ہونے کی وجہ سے گالیاں دینے لگا۔ ہمارے یہاں فرقہ وارانہ فساد بھڑکنے کی نہ جانے کتنی کہانیاں ہیں لیکن وہ سب ایک علیحدہ کتاب کا موضوع ہے۔
جب کوئی تہوار ہوتا جیسے عید یا دیگر مسلم تہوار یہ بات خاص طور پر عام کی جاتی کہ آج سرکاری نل پر پانی دیر تک ملے گا اور بجلی بھی نہیں جائے گی۔ ایک بات یہ بھی سمجھائی جاتی کہ شہر میں جتنے بھی مسلمان ’پاکستانی‘ محلے ہیں ان کی طرف رات کے وقت جانا خطرے سے خالی نہیں۔ سورنوں (اعلی ذات طبقہ) کے محلے کو آزاد ہندوستان کہا جاتا تھا اور اس کا نام گئو رکشنی تھا۔ اس محلہ میں ایک بھی مسلم خاندان موجود نہیں تھا۔ عیسائیوں کا برطانوی دور حکومت کا ایک قبرستان تھا جس کے ارد گرد یہ محلہ بسا ہوا تھا۔
ہندوکاری کا سیاسی عمل جو اس وقت ٹوپی، برقع اور تین طلاق کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں وہ آزادی سے قبل گائے اور بین مذاہب شادیوں جیسے واقعات کو اپنی سیاست کا ذریعہ بنایا تھا۔ ہمیں جب پاکستانی فوجیوں کے خلاف ہندوستانی فوجیوں کی بہادری کی کہانی سنائی گئی تھی، تو وہ ہمیں ایک مسلم مخالف قوم پرست ہندوتووادی فوجی بنانے کے عمل کا ایک حصہ تھا۔
Published: 05 May 2018, 10:34 AM IST
اس ملک میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ برقع اور ٹوپی پہننے کی وجہ سے نہیں ہیں۔ جو لوگ راجستھانی خواتین کے حالات زندگی سے واقف ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ برقع صرف سیاہ رنگ کا نہیں ہوتا، اس کا کوئی ایک ڈیزائن (جیسا مسلم خواتین پہنے نظر آتی ہیں) بھی نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں میں بیکانیر اپنے شاگرد کی چھوٹی بہن کی شادی میں شریک ہوا۔ وہاں ایک شخص نے مجھے ہندو برقع کی کہانی سنائی۔ اس نے بتایا کہ اس کے خاندان میں ایک خاتون باورچی خانے میں پردہ میں بیٹھی تھی اور اس کی پیٹھ کے سامنے اس کے سسر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ خاتون کے پیر میں بچھو نے کاٹ لیا لیکن وہ ذرا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اگر وہ اٹھ کر کھڑی ہو جاتی اور اپنے کپڑے جھاڑ تی یا چلاتی تو یہ ہندو ثقافت کی توہین ہوتی۔
دراصل برقع ایک بہانا ہے، اسے پسماندگی کی علامت مان کر خواتین کو ترقی کی راہ پر ڈالنا یہاں مقصد نہیں ہے بلکہ سماج میں ایک فرقہ وارانہ ذہنیت تیار کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک ہندوتووادی نے بتایا کہ وہ کسی بھی طرح کوئی بھی مدہ بنا لیتے ہیں۔ سفید کرتا پائے جامہ اور ٹوپی پہن کر جب رمضان میں سیکولر جماعتوں کے لوگ افطار میں شرکت کے لئے جاتے ہیں تو ہم ہندوؤں کے سامنے یہ سوال کھڑے کرتے ہیں کہ کیا یہ لیڈر دیوالی اور دوسرے تہواروں پر ہندؤوں کی طرح ٹیکا لگا کر اور بھگوا رنگ کا لباس پہن کر آتے ہیں؟
اپنے خوف کو جارحیت کے طور پر پیش کرنا ہی فرقہ وارانہ سیاست کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ دراصل مذہب کو فرقہ پرستی کی طرف لے جانے کا یہ سب سے کارگر فارمولہ ہے۔ جب اقلیتی طبقہ کے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے دفاع کی کوشش کرتے ہیں تو اکثریتی طبقہ کو عدم تحفظ کا احساس کرایا جاتا ہے اور وہ جارحیت کی طرف گامزن ہونے لگتے ہیں۔ یہ جارحیت ہی عسکریت کے عمل کو مکمل کرتی ہے۔
مسلمان ایک ساتھ ووٹ دینے کے لئے نکلتے ہیں یا ریلیوں میں نظر آجاتے ہیں۔ اگر اس طرح کے مناظر کو بخوبی سمجھنا ہو تو ہندوستان دیہی علاقوں میں شام کے وقت یا سورج کے طلوع ہونے سے عین قبل ان خواتین پر نظر ڈالیں جو متحد ہو کر کھیتوں یا میدانوں میں رفع حاجت کے لئے جاتی ہیں۔ اپنے عدم تحفظ کے احساس کے سبب وہ کیا کچھ نہیں کرتیں؟ ان کے ایک ساتھ بیٹھنے کی عادت یا اپنے لئے میٹرو میں ایک محفوظ ڈبّہ تلاش کرنے کی وجہ بھی عدم تحفظ کا احساس ہی ہے۔
Published: 05 May 2018, 10:34 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 May 2018, 10:34 AM IST
تصویر: پریس ریلیز