فکر و خیالات

’جنگ ختم ہو جائے گی، لیڈر گرما گرمی سے ملیں گے، اور رہ جائے گی...‘، حمرا قریشی

اب اسرائیلی فوجی طاقت کا ہدف لبنان بن رہا ہے، ایسے میں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خود کو سپرپاور کہنے والے ممالک کہاں ہیں؟ کیا انھیں انسانی فریاد سنائی نہیں دے رہی؟

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملہ کے بعد لبنان کی راجدھانی بیروت میں بدحالی کا منظر، تصویر GettyImages</p></div>

اسرائیلی حملہ کے بعد لبنان کی راجدھانی بیروت میں بدحالی کا منظر، تصویر GettyImages

 

یقین نہیں ہوتا کہ ہم ترقی یافتہ مہذب دنیا میں رہنے والے انسان ہیں۔ غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری طرح نسل کشی ہے! اس کے باوجود کسی بھی نام نہاد عالمی لیڈر نے جنگ بندی کے لیے بات چیت کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ قتل عام مزید کتنے فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد رکے گا۔ فلسطین میں نسل کشی جاری ہے، سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینی ہلاک اور تباہ و برباد ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔

غزہ کے اندر اور اس کے ارد گرد وحشیانہ اور بے رحمانہ انداز میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ جو حالات ہیں اس کا بیان لفظوں میں کر پانا مشکل ہو رہا ہے۔ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کی حالت زار ناقابل بیان ہے، اجتماعی ہلاکتوں کا مشاہدہ سبھی کا مقدر بن گئی ہیں۔ غزہ میں ہلاک سینکڑوں فلسطینی بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز جو سامنے آ رہی ہیں، وہ بربریت اور درد کی تکلیف دہ منظر کشی کر رہی ہیں، یہ مناظر دیکھ کر روح بھی زخمی ہو جاتا ہے۔ فلسطینیوں پر جو بربریت ہو رہی ہے، اس کا بیان بھی مشکل ہے۔

Published: undefined

اب اسرائیلی فوجی طاقت کا ہدف لبنان بن رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خود کو سپر پاور کہنے والے ممالک کہاں ہیں؟ کیا انھیں انسانی فریاد سنائی نہیں دے رہی؟ کیا وہ بچوں اور بڑوں و ضعیفوں کی لاشیں نہیں دیکھ رہے؟ کیا وہ پوری عمارتوں اور گھروں و چولہوں کو تباہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے؟ کیا وہ جاری قتل و غارت گری کے دور رس نتائج کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟

موجودہ دور کے حکمراں متوازن قدم اٹھا رہے ہیں، جسے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ کئی سربراہان مملکت نے تو اسرائیل کا تعاون کیا ہے۔ ان حکمرانوں کو اپنی مصنوعی تقاریر میں موجود ترجیحات کو اپنی اور اپنی حکومتوں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اس میں عوام کو گھسیٹنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ عوام بیہودہ نہیں ہیں۔ وہ اتنے بالغ ہیں کہ ظلم و بربریت اور قتل و غارت گری کو پھیلتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ فلسطینیوں کے جائز مطالبات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود حکمراں طبقہ اس سطح کے انسانی المیے کو مکمل نظر انداز کر رہا ہے۔ جب بھی میں دھماکوں میں سینکڑوں ہلاکتوں اور گھروں و عمارتوں پر بمباری کے درمیان بچوں کے ساتھ بڑوں کو بھاگتے ہوئے دیکھتی ہوں، پوری کی پوری بستی کو زمین بوس ہونے کی ویڈیوز دیکھتی ہوں تو خود سے سوال کرتی ہوں کہ بڑے پیمانہ پر ہو رہے اس قتل عام کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ظاہر ہے اس میں اجتماعی طور پر سبھی کا ہاتھ ہے، جو ہر ممکن طریقے سے انسانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

Published: undefined

میں نے جب ایک بار نوم چومسکی کا انٹرویو کیا تھا تو انھوں نے تفصیل سے بتایا تھا کہ ’’صرف ریگن (سابق امریکی صدر) کے دور میں ہی وسط امریکہ میں امریکہ کے ذریعہ اسپانسرڈ ریاستی دہشت گردوں نے لاکھوں لوگوں پر مظالم کیا اور لاشوں کو مسخ کیا، لاکھوں بچوں کو یتیم بنا دیا اور اس دوران 4 ممالک کو ایک طرح سے تباہ کر دیا۔ اسی سال مغرب حامی جنوبی افریقی لوٹ پاٹ میں 15 لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ مجھے مغربی ایشیا یا اس سے آگے کسی اور معاملے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے... حالانکہ یہ سب کچھ ایک آسان ترکیب کے ذریعہ دہشت گردی کی تاریخ والے زمرہ سے باہر رکھا گیا ہے۔ سیاسی اصطلاحات کے بیشتر الفاظ کی طرح ’دہشت گردی‘ لفظ کے بھی دو معنی ہیں، ایک لفظی اور ایک پروپیگنڈہ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پروپیگنڈہ ورژن کو امریکہ نے ترجیح دی ہے اور اس کی پیروی کی ہے۔ دہشت گردی اسی کو سمجھا جاتا ہے جو امریکہ اور اس کے دوستوں و اتحادیوں کے خلاف ہے۔‘‘

Published: undefined

چومسکی نے اس بات چیت کے دوران امریکہ اور نازیوں کے درمیان کی مماثلتوں کا بھی تذکرہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مثال کے طور پر نازیوں نے دہشت گردی کی شدید مذمت کی اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف انسداد دہشت گردی مہم چلائی۔ امریکہ بھی بنیادی طور پر اس سے متفق تھا، اور اس نے جنگ کے بعد والے سالوں میں اسی طرح منظم انداز میں انسداد دہشت گردی کے لیے کام کیا۔‘‘

میرے ساتھ ایک پرانے انٹرویو کے دوران خان عبدالغفار خان کے پوتے اسفندیار ولی خان نے دنیا میں بڑھتے ہنگاموں سے متعلق سلیس انداز میں ایک وضاحت پیش کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’اگر ایک گاؤں میں دو بدمعاش (برے لوگ) ہیں تو یہ ٹھیک ہے، کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے حساب پورا کرنے میں مصروف رہیں گے۔ لیکن ایک ہی بدمعاش بچا تو انارکی اور گمراہی والے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ آج کی دنیا میں مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ صرف ایک بدمعاش بچا ہے۔ موجودہ دور میں باصلاحیت مسلم قیادت آخر ہے کہاں؟ امریکیوں نے افغانستان میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے مقصد سے مذہب کا استعمال کیا، ورنہ افغان جنگ قوم پرستی کی بنیاد پر تھے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جاری مظالم دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ اسلام کا حقیقی معنی اس انارکی میں دبا دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے، کیونکہ اسلام تو انصاف اور امن کی علامت ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں سی آئی اے کے ذریعہ افغان-پاکستان سرحد پر مختلف نمائشی شکلوں میں مدارس اور دیگر مذہبی ادارے قائم کیے گئے تھے۔‘‘

Published: undefined

اگر ہم لاطینی امریکی ممالک سے متعلق بات کریں تو وہ بات یاد آتی ہے جو میکسیکو کے معروف مصنف و کالم نگار جوان میگوئل ڈی مورا نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی۔ 2004 کی بات ہے جب انھوں نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت جب میں نے امریکہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے دو سابق صدور کا حوالہ دیتے اپنی بات شروع کی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’میکسیکو کے صدر جنرل پورفیریو ڈیاز (وہ 1910 تک صدر تھے) نے بہت پہلے کہا تھا ’بے چارہ میکسیکو خدا سے بہت دور اور امریکہ سے بہت قریب ہے‘۔ میکسیکو کے ایک دیگر صدر اڈولفو لوپیز میٹیوس نے کہا تھا میکسیکو کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ’امریکہ‘ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ڈی مورا نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’لیکن میری رائے میں میکسیکو کے دونوں صدور بہت زیادہ سفارتی تھے۔ صدر بش کی جمہوریت اسٹالن جیسی ہے۔ میں اپنے کالموں میں لکھتا رہا ہوں کہ بش کی پالیسیاں انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

میری 2001 میں لیبیا کے سابق حکمراں کرنل معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔ تب میں نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ اپنے والد اور ان کی حکومت پر مغربی طاقتوں کی طرف سے لگائے گئے ’دہشت گردی کے ٹیگ‘ پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی سوال کیا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی کس طرح مالی معاونت کر رہے ہیں؟ جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ سب آپ کی سوچ پر منحصر کرتا ہے۔ آزادی کی خواہش مند کئی رہنماؤں کو دہشت گرد تصور کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں وہ ہیرو بن گئے۔ سوچنے والی بات ہے کہ جب نیلسن منڈیلا مشکل میں تھے تو ہم نے ان کو مدد پہنچائی، موگابے کی مشکل وقت میں بھی ہم نے مدد کی، تو کیا ہم نے دہشت گرد گروپ کی امداد کی! آپ نہ بھولیں، ان دونوں ہی شخصیتوں نے آزادی کے لیے جنگ لڑی اور بعد میں ہیرو بن کر ابھرے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے جب اطالویوں سے جنگ لڑی تو آبادی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ شہید ہو گیا۔ اس لیے پورے معاملے کے پیچھے موجود مسائل کا ادراک کریں... یہ سب بس سوچ اور شبیہ کی بات ہے۔‘‘

Published: undefined

جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ہم وحشیانہ طریقے سے جاری جنگ سے نمٹنے کے لیے متحدہ عالمی محاذ تیار کرنے کی طرف کیوں نہیں دیکھ سکتے! اسرائیل کو آخر اسلحے کون دے رہا ہے، یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے۔

اگرچہ بیشتر نام نہاد عالمی لیڈران (کچھ کو جنگی مجرم بھی کہا جا سکتا ہے... جی ہاں، جنگی جرائم کے ملزم!) باپ اور دادا ہیں، لیکن غزہ میں جاری قتل عام اور اموات سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زخمیوں اور مرنے والوں کی چیخیں انتہائی دردناک اور تکلیف دہ ہیں۔ میں خود سے سوال کرتی رہتی ہوں کہ کیا یہ نام نہاد ترقی یافتہ دنیا ہے؟ کیا یہ وہی دنیا ہے جو امن کی بات کرتی ہے؟ کیا یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے لیے موافق ہے، جہاں شیر خوار اور نوزائیدہ بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا؟ جیسے جیسے فلسطینیوں کے اپنے ہی وطن سے مار بھگائے جانے کا خوف اور اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے، یہ ضروری معلوم پڑتا ہے کہ غزہ و لبنان کے آس پاس موجود بے بس شہریوں کے قتل عام اور مہدف حملوں کو فوراً روکا جائے۔ فوراً جنگ بندی ہو، اور جنگ بندی کے لیے مذاکرہ ہو۔

موجودہ حالات انتہائی فکر انگیز ہیں۔ ایسے میں فلسطینی شاعر محمود درویش کے یہ اشعار آپ کے لیے چھوڑ رہی ہوں:

جنگ ختم ہو جائے گی

لیڈر گرما گرمی سے ملیں گے

اور رہ جائے گی وہ بوڑھی ماں

جو اپنے شہید بیٹے کی منتظر ہوگی

وہ نوجوان لڑکی

جو اپنے محبوب کا انتظار کرے گی

اور وہ بچے

جو اپنے بہادر باپ کے منتظر ہوں گے

میں نہیں جانتا کہ وطن کس نے بیچا

لیکن میں نے دیکھا کہ قیمت کس نے ادا کی

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined