جمعیت علمائے ہند جو 1919 میں قائم ہوئی تھی، اور اب تقریباً 105 سال کا سفر طے کر چکی ہے، اس نے اس 100 سال سے زائد عرصے میں تحریک آزادی، اسلامی روایات کی بقا، اسلامی عائلی قوانین کے تحفظ اور اپنے تعلیمی بورڈ کے ذریعے مسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے غیر معمولی نوعیت کے کام کیے ہیں۔ مولانا محمود مدنی کی قیادت میں اس نے دینی علوم کے فارغین کے لیے جدید علوم کے حصول کے لیے بھی این آئی او ایس سے اشتراک باہمی کے ذریعے نیا اہتمام کیا ہے تاکہ دینی علوم کے طلبہ جب فارغ ہو کر مدرسوں سے نکلیں تو ان کے ایک ہاتھ میں سند فضیلت ہو اور دوسرے میں سرکار کی منظور شدہ سرٹیفیکیٹ۔ آزاد ہندوستان میں جمعیت علمائے ہند نے جس طرح فرقہ پرستی سے مقابلہ کیا ہے اور فسادات میں اس کی قیادت میں فائر بریگیڈ کا رول انجام دیا ہے، وہ بھی قابل ستائش ہے۔
Published: undefined
آج کے اخبار میں یہ خبر پڑھ کر بہت تشویش لاحق ہوئی کہ جمعیت کے عہدیداروں کو دو مدت کار تک کا ہی موقع دیا جائے گا۔ مجھے اصولی طور پر اس تجویز سے عام سیاسی، سماجی تنظیموں کے لیے کوئی نامناسب بات نہیں لگتی ہے، لیکن جمعیت علمائے ہند کے ماضی کے رول اور مستقبل کے چیلنجز کے لیے جو اس ملک میں مسلمانوں کو درپیش آ چکے ہیں، یہ تجویز پوری طرح سے مناسب نہیں لگتی ہے۔ میری رائے میں جمعیت علمائے ہند کے صدر کا منصب ایک شخص کے لیے تاحیات مختص ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر موجود ہ دور میں مولانا سید محمود اسعد مدنی جس طرح سے قوم کی قیادت کر رہے ہیں، ان کی زیر قیادت جمعیت علمائے ہند نے جس طرح رفاہی، فلاحی اور دفاعی اقدامات کیے ہیں وہ غیر معمولی ہیں اور اس لیے مولانا سید محمود اسعد مدنی کو جمعیت علمائے ہند کا تاحیات صدر رہنا چاہیے۔ بقیہ جو مجلس عاملہ کے ممبران ہیں ان کے لیے دو مدت کار صحیح ہیں اور وہ بھی دو مدت کار پوری ہونے کے بعد فصل کے ساتھ بعد ازاں دوبارہ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب کیے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک ناظم عمومی اور دیگر عہدیداروں کا سوال ہے، اس کا اختیار صدر عالی قدر کے پاس ہونا چاہیے کہ وہ جس کو چاہے اس منصب پر اپنی صوابدید کے مطابق مجلس عاملہ کے ممبران میں سے نامزد کر سکے۔
Published: undefined
مجلس عاملہ کے مجوزہ اجلاس میں بقیہ موضوعات پر مناسب فیصلے کیے جا سکتے ہیں اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے دو مدت کار تک لوگوں کی وابستگی کی تجویز اس لیے پیش کرنے کا پروگرام بنایا ہو کیوں کہ مخالفین جمعیت کی کارکردگی اور اس کے ایک خاندان تک محدود ہو جانے پر تنقید کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی یا مولانا سید اسعد مدنی ایک ہی خاندان کے لوگ نہیں تھے۔ ان سب نے اپنے جذبۂ صادق، اولوالعزمی اور حوصلہ مندی سے جمعیت علمائے ہند کے سفر کو آگے بڑھایا اور اس کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان میں سے کون سا ایسا بزرگ ہے جس کے انداز کارگردگی پر تنقید نہ ہوئی ہو، لیکن تمام تنقیدوں اور نقطہ چینی کے باوجود ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ اس لیے ہماری یہ مؤدبانہ درخواست ہے کہ جمعیت علمائے ہند کو اپنے سو سال سے زائد طویل سفر میں اس موڑ پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں لینا چاہیے جو کہ اس کے لیے آگے نئے مسائل کھڑے کر دے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں، ان کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined