مالی نظام درہم برہم ہو چکا ہے، گاؤں کی حالت خراب ہے، نوکریاں دینے میں حکومت ناکام ہو رہی ہے اور تمام سرکاری منصوبوں کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنی ابتدائی دو بجٹ تقاریر حکومت کی ترجیحات بتانے میں خرچ کر دیں، بقیہ تین اپنی حکومت کی ناکامیوں پر معافی مانگنے میں۔
پانچ بجٹ تقاریر میں بی جے پی حکومت کی پوری توجہ اسمارٹ سٹی، اسکل انڈیا، سوچھ بھارت، ڈیجیٹل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا وغیرہ پر مرکوز رہیں۔ لیکن اب اس کی مصیبت یہ ہے کہ ان تمام شعبہ جات میں دکھانے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کر چکی ہے اور وہ اپنی مدت کار میں بہت زیادہ مصروف بھی نظر آتی رہی لیکن اب اس کی حالت اس طالب علم کی طرح ہے جسے امتحان میں کامیاب ہونے لائق نمبر پانے کے لئے بھی اضافی وقت درکار ہے۔ لیکن کیا اس اضافی وقت میں بھی امتحان میں وہ کامیاب ہو پائے گی؟۔
جولائی 2014 میں جب حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا تو وزیر خزانہ نے اشارے دیئے تھے کہ مالی نظم و ضبط پر سختی سے عمل کریں گے اور مالی خسارے کو 4.5 فیصد تک لے کر آئیں گے۔ لیکن یہ جملہ ثابت ہوا اور رواں مالی سال کے دوران اکتوبر تک ہی مالی خسارہ 3.3 فیصد سے تجاوز کر گیا۔ امکان ہے کہ حکومت اپنے ہدف سے 15-20 فیصد تک دور نظر آ رہی ہے۔
پہلے بجٹ میں مودی حکومت نے اسمارٹ سٹی، اسکل انڈیا، سوچھ بھارت، ڈیجیٹل اندیا اور سب کے لئے رہائش وغیرہ کے جو منصوبے لاگو کیے تھے ان کے لئے 50 سے 100 کروڑ روپے تک کا ہی بندو بست کیا گیا۔ ان میں سے متعدد منصوبے تو پٹری سے اتر چکے ہیں۔
پہلے بجٹ میں حکومت نے کہا تھا، ’’این نیشنل انڈسٹریل کاریڈور اتھارٹی‘ بنائی جا رہی ہے جس کا صدر دفتر پونے میں ہوگا اور اس سے اسمارٹ سٹیز منسلک رہیں گی۔‘‘ لیکن دو سال بعد اس اعلان کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔
دوسرا بجٹ تو مزید مایوس کن ثابت ہوا۔ اس میں بھی صرف وعدے کیے گئے اور کوئی حقیقی منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔ کہا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر حالات سازگار نہیں ہیں، پھر بھی جن دھن منصوبہ کے لئے جیٹلی حکومت کو شاباشی دی گئی۔ انہوں نے کہا، ’’کسی نے سوچا ہوگا کہ صرف 100 دن میں 12.5 کروڑ خاندانوں کو مالی مرکزی دھارے سے منسلک کر دیا جائے گا۔‘‘
لیکن آج جن دھن منصوبہ کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ جنوری 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 7.85 کروڑ یا 23 فیصد جن دھن کھاتے غیر فعال پڑے ہیں یا ان میں کوئی پیسہ ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کروڑوں کھاتے ایسے بھی ہیں جن میں نام نہاد رقم موجود ہیں، وہ بھی ان میں جنہیں بینک ملازمین نے خود پیسے جمع کر کے فعال رکھا ہے۔
دوسرے بجٹ میں 2022 تک ہر ایک شہری کے سر پر چھت دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ صرف دیہی بجلی کاری کا کام ہوا وہ بھی اس لئے کیوںکہ 96 فیصد کام تو گزشتہ حکومت مکمل کر چکی تھی۔
Published: 31 Jan 2019, 9:10 PM IST
تیسرے بجٹ میں بھی جیٹلی کے پاس اپنی کامیابی ظاہر کرنے کے لئے اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ ایسے حالات میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ حکومتوں اور عالمی پس منظر کو ملک کے مالی بحران کے لئے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے اس بجٹ میں ’پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘ کا ڈھنڈورا پیٹا۔ لیکن یہ منصوبہ تو صرف ان کسانوں کے لئے تھا جنہوں نے قرض لیا ہوا تھا۔ جیسے ہی کسان قرض سے آزاد ہوتے گئے وہ فصل بیمہ منصوبہ سے باہر ہوتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 2017 میں 4.03 کروڑ کسان اس منصوبہ کا حصہ تھے جو 2018 کے موسم خریف میں کم ہو کر 3.33 کروڑ رہ گئے۔
ان سب کے درمیان حکومت پر بے روزگاری اور نوکریوں کا دباؤ بننے لگا۔ وزیر خزانہ نے اعلان کر دیا کہ نوکریاں پیدا کرنے والی صنعتوں کے تمام نئے ملازمین کی پنشن اسکیم کا 8.33 فیصد حصہ پہلے تین سال تک حکومت برداشت کرے گی۔ اس سے غیر رسمی شعبہ کی کچھ نوکریاں رسمی شعبہ میں تو منتقل ہو گئیں لیکن زمینی سطح پر اس سے روزگار پیدا نہیں ہو سکا۔
اسی دوران وزیر خزانہ نے 2015 میں ایوان کو مطلع کیا کہ حکومت نے نیشنل کیرئر سروس اسکیم شروع کی ہے۔ اس میں تقریباً 4 کروڑ نوجوانوں نے درخواست دی لیکن نوکری محض 7 لاکھ کو حاصل ہو سکی یعنی روزگار حاصل کرنے والوں کا تناسب محض 2 فیصد ہی تھا۔
چوتھا بجٹ آنے سے پہلے تو وزیر اعظم نوٹ بندی کا حملہ کر چکے تھے۔ کہا گیا تھا کہ اس کے لئے حکومت کی نیت بدعنوانی، کالے دھن کو باہر نکالنا، نقلی نوٹوں کو ختم کرنا اور دہشت گردی کو ملنے والے فنڈ پر روک لگانا ہے۔ لیکن وزیر خزانہ نے اس کا دائرہ بڑا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد ٹیکس چوری کو روکنا تھا، اس سے حکومت کو ٹیکس ملے گا جو غریبوں کی بہبود پر صرف ہوگا۔ بینکوں میں رقم ہوں گی تو شرح سود میں کمی آئے گی۔ وزیر خزانہ کو امید تھی کہ حکومت کو کچھ اضافی رقم حاصل ہوگی لیکن یہ ہو نہ سکا۔
حکومت نے ’پردھان منتری کلیان یوجنا‘ شروع کی لیکن اس کے تحت صرف 21 ہزار لوگوں نے کل 4900 کروڑ روپے کا ہی اعلان کیا۔ اس رقم سے تو نئے نوٹ چھاپنے کی لاگت تک نہیں نکل پائی۔ قطاروں میں لگے 100 لوگوں کی جان چلی گئی اور ملک آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
بی جے پی کے انتخابی وعدوں میں کروڑوں نوکریوں کا وعدہ بھی تھا لیکن یہ بھی جملہ نکلا۔ حکومت نے ملک کے 600 اضلاع میں اسکل سینٹرز قائم کر دیئے جس کا انجام یہ نکلا کہ ماہر بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔
پانچواں بجٹ آتے آتے دیہی ہندوستان پر ’مودی نامکس‘ یعنی مودی کی معیشت کا کالا سایہ اور گہرا ہو چکا تھا۔ تب حکومت نے سوچا کہ اسے ایک مرتبہ پھر شعبہ زراعت پر توجہ دینی چاہیے۔
حکومت نے آناً فاناً میں اپنا انتخابی منشور جھاڑ پونچھ کر نکالا اور کہا کہ وہ کسانوں کو فصلوں کی لاگت سے 50 فیصد زیادہ قیمت دینا یقینی بنائے گی۔ یعنی کسانوں کو فصل کی لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ آمدنی ہوگی۔ ایک سال مکمل ہو چکا ہے لیکن کم از کم سپورٹ پرائس میں اضافہ کے اعلان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکا۔ کسان آج بھی اپنی فصل اونے پونے داموں پر بیچنے کو مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کسانوں کو مجبوری میں اپنی فصلوں کو ایم ایس پی سے 60 فیصد کم تک میں فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔
حکومت پانچ بجٹ پیش کر چکی ہے لیکن وعدے وفا کرنے کا ریکارڈ مایوس کن ہے۔
یو پی اے حکومت کے آخری دو سالوں میں شرح ترقی میں گراوٹ درج کی گئی تھی اور 2014 میں اقتدار این ڈی اے کے ہاتھ میں آ گیا، چونکہ اس نے ایف آر بی ایم یعنی مالی حصہ داری اور بجٹ انتظام کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن 2019 میں حکومت ایف آر بی ایم کے راستہ سے پوری طرح بھٹک چکی ہے، نوکریوں کے محاذ پر وہ ہوا میں ہاتھ پیر چلا رہی ہے۔
سال 2014 میں بی جے پی کو سنہرا موقع حاصل ہوا تھا اور وہ زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن پانچ سال بعد اس کے پاس اب دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
معاف کیجئے گا پیوش گوئل جی، اب آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
Published: 31 Jan 2019, 9:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Jan 2019, 9:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز