نو منتخب ارکان پارلیمنٹ کا حلف، اسپیکر کا انتخاب، راہل گاندھی کا قائد حزب اختلاف کے طور پر ذمہ داری سنبھالنا، صدر جمہوریہ کا خطاب، نومنتخب ارکان پارلیمنٹ کا خطاب اور صدر کے خطاب پر بحث کے سلسلے میں وزیر اعظم کا جواب سب عمل مکمل ہو گئے اور 18 ویں لوک سبھا کا پہلا اجلاس اختتام پذیر ہو گیا۔ عوام کی اکثریت کی نظریں اسپیکر کے انتخاب پر لگی ہوئی تھیں اور جب بغیر کسی ہنگامہ کے بی جے پی کے اوم برلا اسپیکر کے لئے منتخب ہو گئے تو نظریں وہاں سے ہٹ کر صدر جمہوریہ کے خطاب کی طرف مڑ گئیں اور وہ بھی جب بغیر کسی سیاسی ہنگامہ کے اختتام پذیر ہوا تو عوام کی نظریں اب حکومت کے سیاسی اتحادیوں کے اگلے قدم پر ٹک گئی ہیں۔
Published: undefined
حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے پارلیمانی اجلاس میں سب سے زیادہ عوام کی توجہ کا مرکز قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کا خطاب اور وزیر اعظم کا جواب تھا۔ اس پر بھی کچھ فیصد کی رائے میں راہل نے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کیا اور کچھ کی رائے میں وزیر اعظم ابھی بھی اپنی پارٹی کی سیٹوں میں کمی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ راہل گاندھی کے خطاب کے دوران بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم سمیت کابینہ کے وزراء نے فوری طور پر سوالات اٹھائے اور وزیر داخلہ امت شاہ نے تو اس وقت انتہا ہی کر دی جب انہوں نے اسپیکر سے برسراقتدار جماعت کے لئے حفاظت طلب کی۔
Published: undefined
کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور کابینہ کی راہل گاندھی کے خطاب کے دوران مداخلت بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ تھی یا ان کا اس خطاب پر جذباتی ردعمل؟ اگر یہ حکمت عملی تھی تو اس کا بی جے پی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا کیونکہ اس سے ایک تو بی جے پی کی گھبراہٹ نظر آئی اور دوسرا یہ کہ راہل گاندھی کو جواب دینے اور خود کو درست کرنے کا موقع مل گیا۔ اگر یہ جذباتی ردعمل تھا تو اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ حکمراں جماعت بہت گھبرا گئی ہے کیونکہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع جیسے طاقتور وزراء کو جواب نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ ایسے معاملے میں ارکان اور وہ بھی خاص طور سے اتحادی جماعتوں کے ارکان سے بیان دلوانا چاہئے تھا۔ بہرحال حزب اختلاف یعنی انڈیا نامی اتحاد جو پہلے سے ہی اس ہار کو اپنی جیت کی طرح پیش کر رہا ہے اس کو بی جے پی کی اعلی قیادت کی مداخلت کا فائدہ پہنچا۔
Published: undefined
وزیر اعظم کے پاس بھی راہل گاندھی کے حملہ کے دو متبادل تھے ایک یہ کہ وہ خطاب تک خود کو محدود رکھتے اور حزب اختلاف کے ذریعہ اٹھائے گئے ایشوز کو نظر انداز کرتے یا پھر حزب اختلاف اور خاص طور سے کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ وزیر اعظم نے دوسرے متبادل کا انتخاب کیا اور انہوں نے اپنے دو گھنٹے سے زیادہ خطاب کے دوران کانگریس اور حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر اعظم شاید اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے کہ راہل گاندھی کی عوام میں مقبولیت بڑھ رہی ہے اس لئے ذاتی طور پر ان کے خلاف کچھ بھی کہنا خراب حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
حکومت کے خلاف 10 سال کی ناراضگی اور حال ہی میں اختتام پذیر انتخابات میں حزب اختلاف کی پہلے کے مقابلے بہتر کارکردگی کی وجہ سے ضروری تھا کہ بر سر اقتدار جماعت اپنے تیور پر قابو رکھتی لیکن اپنے رویہ اور جواب سے اس نے حزب اختلاف کو تقویت بخشی، جو کسی بھی حکومت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ حکومت وقت کو ملک کے سامنے درپیش مسائل کو حل کر نے کے لئے ملک کا سیاسی پارہ نیچے لانے کی ضرورت تھی لیکن اس نے سیاسی پارے کو اوپر کرنے سے آنے والے ریاستی انتخابات کے لئے حزب اختلاف کو طاقت دے دی ہے۔ حکمراں اتحاد کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت انکساری کو پسند کرتی ہے۔
Published: undefined
ملک کی ترقی کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حزب اختلاف اور برسراقتدار جماعتیں مل کر کام کریں اور مسائل کو حل کرنے کی سمت قدم اٹھائیں۔ انتخابات ختم ہو چکے ہیں، عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں کیونکہ عوام دونوں اتحادوں سے ملک کو درپیش مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined