اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے: اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں۔(سورۃ التوبہ 36)
ان چار مہینوں کی تحدید قرآن کریم میں نہیں ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے اوروہ یہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔ معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد ، قتل وغارت گری اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے ، مگر اِن چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔
رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہونچا۔ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) لہذا ماہِ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعا یا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرمادیتے تھے۔ ماہِ رجب کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے برکت حاصل ہوئی ، جس سے ماہِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ماہِ رجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتاہے۔ نماز وروزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے۔ البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں اور ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔
ماہ رجب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤرخین کی رائے مختلف ہیں۔ البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ہے۔
Published: undefined
اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27 رجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’مہر نبوت‘ میں تحریر فرمایا ہے۔
اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔حدیث میں ’عرج بی‘ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔
سورۃ النجم کی آیات 13-18 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرودرگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔
احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔
Published: undefined
قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
Published: undefined
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔۔۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ ۔۔ نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جلّ شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے۔
Published: undefined
اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیاجو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کاقد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیےٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اللہ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔
Published: undefined
اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اورثواب میں پچاس ہی ہیں۔
Published: undefined
اس موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی فکر اور اللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔
سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔
اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امیتوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
Published: undefined
زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی، البتہ ہمارے لئے اتنا مان لینا انشاء اللہ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔
Published: undefined
رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام سے ملاقات اور پھر اللہ جل شانہ کی دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبرآتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کئے گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روشن فرمادیا، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے۔
Published: undefined
اس اہم وعظیم سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کررہاہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔
Published: undefined
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)
Published: undefined
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
Published: undefined
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں ۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)
Published: undefined
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)
Published: undefined
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)
Published: undefined
احادیث میں سدرۃالمنتہی اور السدرۃ المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں سدرۃالمنتہی استعمال ہوا ہے۔ سدرۃ کے معنی بیر کے ہیں اور منتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہوجاتے ہیں اور جوبندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں پھر وہا ں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں پھر اوپراٹھائے جاتے ہیں۔
وضاحت: واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لئے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کو بیان فرمایا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما اور دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرما۔ آمین۔
(بشکریہ: www.najeebqasmi.com)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined