گزشتہ دنوں دہلی میں مودی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے کے معاملہ کو لے کر ایک کانفرنس ہوئی تھی، جس میں کئی موجودہ اور سابق ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اکابرین نے شرکت کی تھی اور مودی حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہندوستان کی تاریخی فلسطین پالیسی سے انحراف قرار دیا اور اس پر ا ز سر نو غور کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس کانفرنس میں مودی حکومت کی حلیف جنتا دل (یو) کے جنرل سیکرٹیری اور قومی ترجمان کے سی تیاگی نے بھی شرکت کر کے اپنی پارٹی کا موقف واضح کر دیا تھا یعنی مودی حکومت کے حلیف بھی حکومت کے اس انسانیت مخالف فیصلہ کے مخالف ہیں۔ بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں حزب اختلاف اس معاملہ کو لوک سبھا میں اٹھائے اور مودی حکومت غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی اور نسل کشی پر اپنا موقف واضح کرے۔
Published: undefined
گوتم بدھ، گرو نانک، خواجہ غریب نواز، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسے امن و آشتی، انسانیت، حق پسندی اور پر امن بقائے باہم کا پیغام دینے والا ملک ہندوستان فلسطینی بچوں بزرگوں عورتوں اور نوجوانوں کو بے دریغ قتل عام کرنے والے، ان کی نسل کشی کرنے والے، نسل کشی کے الزام میں عالمی عدالت سے گرفتاری کا وارنٹ جس ملک کے وزیر اعظم کے خلاف جاری ہوا ہو، اس ملک کو ان انسانیت سوز مظالم کے لئے اسلحہ سپلائی کرے، یہ بات ہم جیسے لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں نے جب پہلی بار سنی تو انھیں یقین نہیں آیا لیکن سچ تو سچ ہے۔ مودی حکومت کے اس فیصلہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یہ ملک اب واقعی مذکورہ بالا عظیم شخصیات کا نہیں بلکہ گوڈسے جیسے قاتلوں کا ملک بن چکا ہے۔ اسرائیل کو لے کر مودی حکومت کا رخ پہلے بھی اسرائیل نواز تھا لیکن وہ فلسطینیوں کے حق کی بات بھی کرتا رہتا تھا یعنی ترازو کا پلڑا اسرائیل کی طرف جھکا تو ضرور تھا لیکن پوری طرح سے اکنگا نہیں ہو گیا تھا لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے اعتراض اور مخالفت کی آوازیں بھی اٹھی ہیں لیکن حکومت ہند نے اس معاملہ پر ابھی تک نہ تو انکار کا کوئی بیان جاری کیا ہے، نہ ہی اقرار کا۔ سنگھ پریوار کے وفاداروں اور ملک کے مسلم دشمن عناصر کی جانب سے اس اسلحہ سپلائی کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا جا رہا ہے کہ کرگل کی جنگ میں اسرائیل نے ہندوستان کو ضروری جنگی سامان فراہم کیا تھا۔ یہ دراصل تاویل گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے۔ اول تو یہ بات ہی ناقابل یقین ہے کہ اسرائیل کے سپلائی کئے گئے سازو سامان سے کرگل فتح ممکن ہو سکی تھی، یہ فتح ہندوستانی فوجیوں کی بہادری کے ساتھ ساتھ ان بوفورس توپوں کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی، جن کو لے کر آنجہانی راجیو گاندھی کے خلاف جھوٹ کا طومار کھڑا کیا گیا تھا۔
Published: undefined
مودی حکومت نے اسرائیل فلسطین تنازعہ میں ملک کے تاریخی موقف کو یکسر بدل دیا ہے۔ ہندوستان فلسطین کا حامی اس وقت سے تھا جب 1917 میں برٹش وزیر خارجہ لارڈ باالفورس نے صیہونی لیڈر ہرزل کو ایک مکتوب بھیج کر انہیں خوشخبری د ی تھی کہ "ملکہ معظمہ کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کو ایک ملک کے قیام کی منظوری دینے پر رضامند ہے۔‘‘ اس خط کے منظر عام پر آتے ہی مہاتما گاندھی نے لارڈ باالفورس کو ایک مکتوب بھیج کر اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "فلسطین ویسے ہی فلسطینیوں کا ہے جسے برطانیہ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا ہے۔" ملک کی آزادی کے بعد جواہر لال نہرو کی خارجہ پالیسی میں فلسطینیوں کے حق کی حمایت اور اپنا وطن واپس لینے کی ان کی جدوجہد کی مکمل حمایت پر مبنی رہی تھی۔ ہندوستان نے تمام عالمی پلیٹ فارموں پر فلسطین کی کھل کر حمایت کی، یہاں تک کہ اسرائیل سے مکمل سفارتی رشتے بھی نہیں قائم کئے صرف کام چلاؤ رشتوں کے لئے ممبئی میں ایک اسرائیلی سفارت کار کی موجودگی منظور کی تھی۔ یہ سلسلہ اندرا گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی کے دور تک جاری رہا۔ اوسلو سمجھوتے کے بعد جب فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی اور مرحوم یاسر عرفات اس کے سربراہ بنے تو اس اتھارٹی کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ملکوں میں ہندوستان شامل تھا۔ اس سے پہلے بھی ہندوستان یاسر عرفات کو فلسطینیوں کا اصل نمائندہ تسلیم کرتے ہوئے انہیں سربراہ مملکت کا درجہ دے چکا تھا اور وہ 1972 میں دہلی میں منعقدہ ناوابستہ کانفرنس میں وہ بطور سربراہ مملکت ہی مدعو کئے گئے تھے۔ یہی نہیں بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپئی جب جنتا پارٹی کی سرکار میں وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے پہلے جلسہ عام میں ہی فلسطینی کاز کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے جن عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، اسے وہ علاقے خالی کرنے ہوں گے۔ بطور وزیر اعظم بھی اٹل بہاری واجپئی کی سرکار نے فلسطین اور اسرائیل کے ما بین ایک متوازن پالیسی اختیار کی تھی اور فلسطینیوں کے لئے ایک ملک کی حمایت کرتے رہے تھے۔
Published: undefined
مودی حکومت نے فلسطین کے سلسلہ میں ملک کی تاریخی اور متفقہ خارجہ پالیسی کو یکسر بدل دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی مسلم دشمنی کو ا ب ملک کی سرحدوں سے بھی متجاوز کر دیا ہے، ورنہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے کا اور کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ مودی حکومت کا یہ فیصلہ ملک کے عظیم تر مفاد کے بھی خلاف ہے۔ عرب ملکوں سے ہندوستان کے نہ صرف تاریخی رشتے رہے ہیں بلکہ اس کے معاشی تعلقات بھی بہت مضبوط اور باہمی مفاد میں رہے ہیں۔ لاکھوں ہندوستانی مختلف عرب ملکوں میں بر سر روزگار ہیں۔ ملازمت اور تجارت دونوں معاشی سرگرمیوں میں ہندوستانی بلا تفریق مذہب وہاں مقیم ہیں اور وہاں سے بھیجا گیا زر مبادلہ ہندوستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے جب دوسرا ایٹمی دھماکہ کیا تھا تب امریکہ سمیت کئی مغربی ملکوں نے ہندوستان پر معاشی پابندی عائد کر دی تھی، تب انہوں نے ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لئے رثرجنٹ انڈیا بانڈ جاری کیا تھا، اس بانڈ میں سب سے زیادہ رقم عرب ملکوں سے ہی آئی تھی۔ مودی حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ بھلے عرب حکمران مصلحت کوشی کا شکار ہو کر پہلے جیسا اسرائیل مخالف رخ اختیار نہیں کر رہے لیکن عرب عوام کے دلوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف لاوا پک رہا ہے، جو کبھی بھی پھوٹ سکتا ہے اور جس کی قیمت وہاں مقیم ہندوستانیوں کو ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ اسرائیل سے بھلے ہی ہندوستان کو پیگاسس جیسے کچھ آلات مل رہے ہیں لیکن جو معاشی مفاد عرب ملکوں سے وابستہ ہے اس کا معمولی ترین تناسب بھی اسرائیل سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے مودی حکومت کو کو اپنی اس اسرائیل نوازی پر ملک کے عظیم تر مفاد اور انسانیت کے جذبہ کے ساتھ از سر نو غور کرنا چاہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined