اقتدار سے ہمیشہ چپکے رہنے کا گر موجودہ دور کے سیاستداں کی ایک اہم خوبی سمجھی جانے لگی ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس سیاسی پینترے کے استاد بن چکے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں نتیش کمار کو اس وجہ سے کوئی بھی اقتدار سے باہر نہیں کر سکا۔ جب ان کو کبھی اپنے دیرینہ سیاسی دوست لالو پرساد یادو کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر بہار کا وزیر اعلیٰ بننا پڑا ہو وہ اس فن سے باز نہیں آئے۔ اسی طرح جب ان کو یہ محسوس ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اب وہ بوجھ بن چکے ہیں تو انھوں نے پھر کرسی بچانے کے لیے لالو پرساد یادو کا ہاتھ پکڑنے سے گریز نہیں کیا۔ تب ہی تو خواہ بہار کا وزیر اعلیٰ یا پھر مرکزی حکومت میں کوئی اہم وزارت حاصل کرنے کی ضرورت پڑی تو انھوں نے اس فن کا استعمال کیا۔ وہ اس فن کے ایسے استاد بن چکے ہیں کہ ان کے دوست و دشمن دونوں ہی اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر بہار میں اقتدار کے مزے لینے ہیں تو انھیں بھی نتیش کے آگے جھکنا ہوگا۔ اس طرح خواہ لالو ہوں یا مودی دونوں ہی نتیش کی ایک آواز پر لبیک کہتے اور اپنا اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ لیکن کیا بات ہے کہ نتیش کمار کے بغیر کوئی بھی پارٹی اقتدار تک نہیں پہنچ پاتی ہے!
Published: undefined
پچھلی تقریباً دو دہائیوں میں اس سیاسی گر کا استعمال کر نتیش کبھی بہار کے وزیر اعلیٰ تو کبھی مرکزی کابینہ کے ایک اہم رکن برقرار رہے۔
ابھی چند روز قبل بہار میں جو پھیر بدل ہوئی وہ نتیش کمار کی فن کاری کی وجہ سے ہوئی۔ بات کچھ یوں ہے کہ بہار میں نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ مل کر بہار کا اقتدار سنبھالے ہوئے تھے۔ مگر چند ماہ قبل یکایک نتیش کمار کو یہ محسوس ہوا کہ نریندر مودی کو وزیر اعظم کے مقام سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے دوبارہ ’دل بدلو‘ سیاست کا تار چھیڑ دیا۔ وہ واقف تھے کہ اگر خود پٹنہ سے دہلی میں وزیر اعظم کی کرسی پر قبضہ جمانا ہے تو اس کے لیے بہار میں لالو یادو کا ہاتھ تھامنا پڑے گا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے بی جے پی کے ’اوگن‘ گنوانے شروع کر دیے۔ نتیش کا سیاسی کردار سمجھنے والے کہنے لگے کہ بس اب نتیش چلے لالو کی مدد سے اپنی وزیر اعلیٰ کی گدی بچانے۔ وہی ہوا بھی۔ بس راتوں رات نتیش-لالو کی چند میٹنگیں ہوئیں اور یہ جا وہ جا نتیش کمار نے لالو کی مدد سے بی جے پی کو چھوڑ لالو کے بیٹے تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر وزیر اعلیٰ کا گدی پھر سنبھال لیا۔
Published: undefined
خیر، لالو اور نتیش مل جل کر بہار کی حکومت چلاتے رہے۔ دراصل نتیش کی نگاہیں دہلی کے تخت و تاج پر تھیں۔ چنانچہ انھوں نے دہلی کا سفر تیز تر کر دیا اور مودی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی ڈفلی بجانی شروع کر دی۔ ان کی کوشش کارگر بھی ہوئی۔ وہ اپوزیشن پارٹیاں جو کچھ عرصے تک ایک دوسرے کا منھ تک دیکھنے کو راضی نہیں تھیں، آخر نتیش کی کوششوں سے ایک ہی خیمے میں اکٹھا ہونے لگیں۔ دو تین میٹنگوں کے بعد ’انڈیا‘ نام کا ایک اپوزیشن بلاک بن گیا۔ اب نتیش کے دماغ میں یہ شروع ہوا کہ کسی طرح انڈیا بلاک ان کو 2024 کے پارلیمانی چناؤ سے قبل اپنا وزیر اعظم امیدوار نامزد کر دے۔ چند ہفتوں بعد انڈیا اتحاد کی میٹنگ سے نتیش کو یہ محسوس ہوا کہ بھیا یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک گرو گھنٹال ہیں، اس لیے ان کی دال یہاں گلنے والی نہیں ہے۔
Published: undefined
ادھر نریندر مودی نے پرانا رام مندر کارڈ چلایا۔ 22 جنوری 2024 کو رام مندر میں رام للا کے دَرشن کا آغاز ہونے لگا کہ مودی اگلا چناؤ بھگوان رام کے نام پر ہی لڑیں گے۔ یہ بھی ہر کسی کو صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک بار پھر سے مودی کو ہرانا مشکل ہوگا۔ ساتھ ہی حال میں بی جے پی نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی پھر اقتدار میں واپس آ گئی۔ اب نتیش کمار کھٹکے۔ دہلی میں ان کی دال گلتی نظر نہیں آئی۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر تھا کہ اگر نتیش انڈیا بلاک میں برقرار رہے تو مودی لوک سبھا چناؤ کے بعد پٹنہ میں بھی نتیش کو چلنے نہیں دیں گے۔ بس چند دنوں کے اندر ہی انھوں نے پھر مودی کے آگے گھٹنے ٹیکے اور اس طرح بہار کی وزارت اعلیٰ کی کرسی بچا لی۔
Published: undefined
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر جب سب واقف ہیں کہ نتیش کبھی بھی کسی کو دھوکہ دے کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں، تب بھی ان کے کبھی دوست تو کبھی دشمن رہنے والے لوگ بھی نتیش کا ہاتھ کیوں تھام لیتے ہیں! اس کا راز بہار میں عرصہ دراز سے چلی آ رہی دلت پر مبنی سیاست ہے۔ سب سے پہلے بہار میں ذات پات کا ڈنکا بجا کر مرحوم کرپوری ٹھاکر نے سنہ 1970 کی دہائی میں کانگریس کو پہلی بار ریاستی اقتدار سے باہر کیا تھا۔ تب سے یہ واضح تھا کہ بہار میں اقتدار حاصل کرنا ہو تو ذات پات کا پہاڑا چلاؤ اور اقتدار حاصل کر لو۔ اسی فارمولے کا استعمال کر لالو یادو نے بہار میں اقتدار حاصل کر لیا اور برسوں بہار کے سلطان بنے رہے۔ مگر ذات پات کا جوڑ گھٹانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے پچھڑی ذاتوں کو اپنے ساتھ کرنا ہوگا۔ مگر محض ان کے ساتھ آنے سے پوری طرح کام نہیں بنتا ہے۔ چنانچہ لالو یادو نے یادووں اور دوسری پچھڑی ذاتوں کو تو اپنے ساتھ کیا لیکن اس کو کھیل کو مضبوط تر بنانے کے لیے انھوں نے مسلمانوں کا بگھار لگا اپنا کام کر لیا۔ اس طرح برسوں لالو کا کام چلتا رہا۔ مگر بی جے پی اور نتیش دونوں نے لالو کو ہرانے کے لیے ایک نیا فارمولہ دھونڈ لیا۔ نتیش لائے غیر یادو ذاتیں اور بی جے پی نے حاصل کیا اعلیٰ ذاتوں کا اعتماد۔ اور اس طرح بہار میں ایک نیا ذات پات کا اتحاد بنا۔ بے چارے لالو گرے منھ کے بل، مگر نتیش کا کام بن گیا۔ اسی طرح جب نتیش کو لالو کی مدد کی ضرورت پڑی تو انھوں نے لالو کا ہاتھ تھام بی جے پی کو باہر کر اپنا الو سیدھا کر لیا۔ اسی طرح کبھی لالو تو کبھی بی جے پی کی مدد سے نتیش وزیر اعلیٰ بنتے رہے۔ اب جب ان کو لگا کہ دہلی میں اپوزیشن کیمپ میں ان کی نہیں چلی تو انھوں نے پھر سے لالو کو پٹخنی دے مودی کا دامن تھام لیا۔ اس طرح وہ نویں بار پھر سے بہار کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ لیکن ان کی اس سیاست نے ان کو آخر بے پیندی کا لوٹا بنا دیا۔ لوگوں کو ان پر سے اب اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہر کوئی ان کو کہہ رہا ہے کہ ’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘۔ نتیش ٹھہرے نتیش، کیسی شرم و کیسی حیا۔ ان کو کرسی عزیز ہے اور وہ ان کے قبضے میں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined