فکر و خیالات

 10 محرم! مظلوم کی فتح اور ظالم کی شکست 

ظلم فقط کسی کو ناحق مار دینے کا نام نہیں بلکہ چیونٹی کے منہ سے ایک دانہ چھین لینے کا نام بھی ظلم ہے اور حق بات کو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث نہ ماننا بھی ظلم ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

شہنشاہ کربلا کے عالم انسانیت پر بالعموم اور دنیائے اسلام پر بالخصوص مخفی و آشکار احسانات کا کاملاً احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ احسانات ایسے جو کثیرالجہت اور عالم گیر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اولاد آدم میں سے ایک بڑی جمعیت اپنے اس محسن کے اسم مبارک سے بھی ناآشنا ہے اور بہت سے انسان احسان فراموشی کا اس حوالے سے دیدہ و دانستہ مرتکب ہو رہے ہیں ۔ خیر کوئی معترف ہو یا نہ ہو 10 محرم 61 ہجری کو امام عالی مقام نے پیغمبر اسلام کے مشن کو بچانے کے لیے عظیم قربانی پیش کرکے ثابت کر دیا کہ آپ علیہ السلام محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی وارث ہیں۔ اس طور انسانیت کی گردن امام حسین علیہ السلام کے احسانات سے تا قیام قیامت زیر بار رہے گی۔

Published: undefined

ظلم انسانی فطرت سے سازگار نہیں، جب ضمیر مر جاتاہے تو انسان ظلم کی بیساکھیوں کا سہارا لینا شروع کردیتا ہے۔ ظلم فقط کسی کو ناحق مار دینے کا نام نہیں بلکہ چیونٹی کے منہ سے ایک دانہ چھین لینے کا نام بھی ظلم ہے اور حق بات کو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث نہ ماننا بھی ظلم ہے۔61 ہجری میں ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو سرزمین کربلا پر تاریخ بشریت کا ایک ایسا انوکھا واقعہ رونما ہوا جس نے مقتول کو قاتل پر، مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ واقعہ اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر صحرا کے وسط میں پیش آیاتھا اور حکام وقت کے منصوبے کے مطابق اسے وہیں پر دفن ہوجانا چاہئے تھا لیکن یہ واقعہ دفن ہونے کے بجائے ہرروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔

Published: undefined

 یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبے کو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاؤ لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین  کو سربلند بنادیا۔ ہمارے سامنے تاریخ بشریت دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسلہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہے مگر تاریخ بشریت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یامفکر نے اپنے علم ودانش سے امام حسین  جیسا کام نہیں لیا۔

Published: undefined

کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تحریک کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین  نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو اپنے تدبر اور بصیرت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام نے تیار کیا۔آپ  نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔

Published: undefined

حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ امام کا خلوص اور مدبرانہ حکمت عملی تھی کہ جس سے آپ  نے اس تحریک کو جاویداں بنا دیا۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارے درمیان دین کی خاطر فداکاری و جان نثاری سے گریز اور مدبرانہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔ مدبرانہ حکمت عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔

Published: undefined

دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسین کے نظریہ حریت ، جانثاری اور آپ  کی حکمت عملی کے سائے میں یزیدانِ وقت کے خلاف متحد ہوکر اپنی جدوجہد کا آغاز کرے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی اورہم آج بھی فاتح بن سکتے ہیں۔

Published: undefined

حضرت امام حسین  مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ دنیا کا ہر غیر متعصب انسان اور باشعور مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتاہو، امام کا معتقد اور محب ہے۔ پس فکر امام سے فائدہ اٹھانے اور عصر حاضر میں سیرت امام حسین پر چلنے کا حق بھی تمام مسلمانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔عصر حاضر کی کربلا میں ہماری نجات کا روشن راستہ یہی ہے کہ ہم فرقوں،مسالک اور فقہوں سے بالاتر اور غیرجانبدار ہوکر تحریک کربلا پر تحقیق کریں،سنی سنائی باتوں پر چلنے اور لکیر کا فقیر بننے کے بجائے فکرامام حسین  کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پڑھیں اور دوسروں تک بھی آپ کا پیغام پہنچائیں۔امام  کے بارے میں ختم الرسل حضرت محمد مصطفی نے جو فرمایا ہے اس کا بھی مطالعہ کریں اور آج کی اس تنگ نظر ، متعصب سرمایہ دارانہ دنیا میں ایک حسینی و اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کریں۔

Published: undefined

تحریک کربلا کے اصل مدعا و مقصد کو سمجھنے کیلئے لازمی ہے کہ کربلا کا مطالعہ اس کے صاف و شفاف منابع سے ہی کیا جائے۔ اس حوالے سے کربلا میں امام علیہ السلام اور یاوران امام پر جو مظالم ڈھا ئے گئے۔ ان کا اختتام کربلا ہی میں نہیں ہوا بلکہ ان کی نوعیت وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی گئی اور آگے جاکر ایک نئی صورت میں وقوع پذیر ہوئے۔ یعنی کربلا کے جانبازوں کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے بہت سی بے سر و پا روایات کا ڈھیر لگا دیا گیا تاکہ پیغام کربلا اور حسینی مشن کا مقصد اسی ڈھیر کے نیچے دب کر رہ جائے۔

Published: undefined

آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جیسے تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین  کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات میں گم ہو چکے ہیں اور فکر ہماری معاشرت سے جیسے رخصت ہو چکی ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے یزیدی دور سے گذر رہی ہے وہ کربلا کا منظر پیش کررہی ہے اس دور ظلمت سے نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکرحسین  وکربلا اور ان کے جذبہ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور امام حسین علیہ السلام کے پاک واعلیٰ ترین مشن کی پیروی میں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined