فکر و خیالات

سر سید احمد خاں: ہندو مسلم اتحاد کے نقیب

سر سید احمد خاں نے ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرازم کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے تعلیم کے ذریعے قوم کو پسماندگی سے نکالا اور علی گڑھ میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے ادارے قائم کیے

سر سید احمد خاں
سر سید احمد خاں 

(سر سید احمد خاں کا یومِ پیدائش 17 اکتوبر 1817ء ہے اور یہ مضمون ان کی پیدائش کی مناسبت سے ان کی خدمات اور افکار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے)

یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغل شہنشاہ اکبر نے برصغیر میں اس وقت ایک سیکولر حکومت چلائی جب دنیا سیکولرازم کی اصطلاح سے بھی نا آشنا تھی۔ اسی طرح سر سید احمد خاں نے بھی اپنے قائم کردہ اداروں کے ذریعہ سیکولرازم کی تھیوری اور فلسفے سے ہندوستانیوں کو اس وقت متعارف کرایا، جب وہ اس کی عبارت سے بھی ناواقف تھے۔ انہوں نے اپنے مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں جس طرح سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا، اس کی مثال دنیا کے کسی تعلیمی ادارے میں نہیں ملے گی۔

پہلی ملک گیر تحریک آزادی 1857ء میں ہر خاص و عام نے حصہ لیا تھا، مگر کیو براؤن جیسے قلم کاروں نے تحریک آزادی کا موجب مسلمانوں کو ٹھہرایا۔ وہ لکھتا ہے کہ، ’’حکومت پنجاب نے پہلے سے ہی اعلان کر دیا تھا کہ بغاوت کا آغاز بنیادی طور پر ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی جانب سے ہوا۔‘‘ یعنی مسلمانوں کو سرکشی کا محرک اور ہندوؤں کو ان کا آلہ کار قرار دیا۔

Published: undefined

لہٰذا ناکامی کے بعد برطانوی نوآبادیاتی نظام نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی پوری تگ و دو کی۔ انہوں نے ہر موڑ پر اپنے ظلم و ستم اور عتاب کا شکار بنایا۔ تاجرانِ فرنگ کی انتقامی کارروائی دیکھ کر سر سید احمد خاں ہل گئے۔ انہوں نے نزع کی کیفیت سے دوچار مسلم قوم کو پسماندگی، مایوسی، افسردگی اور احساسِ محرومی کے غار سے نکالنے کے لیے تعلیم کا فسوں پھونکا اور بڑے خلوص و تندہی سے قوم کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔

مصلحِ قوم بجنور سے مراد آباد آئے تو انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا اور جب ان کا تبادلہ غازی پور ہوا تو وہاں بھی ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ مگر ان مدارس کے دروازے بلا تفریق ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوئے تھے، اسی نہج پر مدرسۃ العلوم علی گڑھ قائم ہوا، جس کے لیے مسلم نوابین اور رؤسا کے ساتھ ہندو راجاؤں نے بھی مالی تعاون کیا۔

Published: undefined

ہندو مسلم اتحاد کے نقیب سر سید احمد خاں 1884ء کے انڈین ایسوسی ایشن کے اجلاس سے یوں خطاب کرتے ہیں، ’’میرے دوستو! مجھ کو دکھ ہوگا اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ کالج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ خاص سبب جو اس کالج کو قائم کرنے کا ہوا یہ تھا کہ مسلمان روز بروز زیادہ تر ذلیل اور محتاج ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے، فرض کرو دو بھائی ہیں جن میں سے ایک بھائی طاقت ور اور تندرست ہے اور دوسرا بیمار ہے۔ تمام بھائیوں کا فرض ہے کہ اس بیمار بھائی کی صحت کی تدبیر کریں۔ یہی خیال تھا جس نے مجھے ایم اے او کالج قائم کرنے پر آمادہ کیا۔ میں خوش ہوں کہ اس کالج میں دونوں بھائی ایک سی ہی تعلیم پاتے ہیں۔ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مثل اپنی دو آنکھوں کے سمجھتا ہوں۔‘‘

سر سید ایک وسیع النظر، دوراندیش اور مستقبل شناس شخصیت کے مالک تھے، جنہوں نے اپنی بصیرت اور دور رس نگاہوں سے برصغیر کے آنے والے کل کو دیکھ لیا تھا۔ اسی لیے ہندوستانیوں کو بارہا اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ تلقین کرتے ہیں کہ آپس میں کسی بھی قسم کی تفریق پیدا نہ ہونے دیں، کیونکہ آپسی نفاق کی چھوٹی سی چنگاری کے شعلہ بننے میں دیر نہیں لگتی، جو مادر ہند کو خاکستر کرنے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔

Published: undefined

27 جنوری 1884ء کو سر سید گورداس پور میں تقریر کرتے ہوئے ابنائے وطن کو سمجھاتے ہیں، ’’پرانی تاریخوں میں اور پرانی کتابوں میں دیکھا اور سنا ہوگا اور ابھی دیکھتے ہیں کہ قوم کا اطلاق ایک ملک کے رہنے والوں پر ہوتا ہے۔ افغانستان کے مختلف لوگ ایک قوم کہلاتے ہیں۔ ایران کے مختلف لوگ ایرانی کہلاتے ہیں۔ یوروپین مختلف خیال اور مذہب کے ہیں مگر ایک قوم میں شمار ہوتے ہیں۔ گو ان میں دوسرے ملک کے بھی لوگ آ کر بس جاتے ہیں، مگر وہ آپس میں مل جل کر ایک ہی قوم کہلاتے ہیں۔ غرض کہ زمانہ قدیم سے قوم کا لفظ ملک کے باشندوں پر بولا جاتا ہے، گو ان میں بعض خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں۔ اے ہندو اور مسلمانو! کیا تم ہندوستان کے سوا اور کسی ملک کے رہنے والے ہو؟ کیا اسی زمین پر تم دونوں نہیں بستے؟ کیا اسی زمین پر تم دفن نہیں ہوتے؟ یا اسی زمین کے گھاٹ پر جلائے نہیں جاتے؟ اسی پر مرتے ہو اور اسی پر جیتے ہو، تو یاد رکھو کہ ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو، مسلمان اور عیسائی جو اسی ملک میں رہتے ہیں، اس اعتبار سے سب ایک ہی قوم ہیں۔ جب یہ سب گروہ ایک قوم کہے جاتے ہیں تو ان سب کو ملکی فائدے میں، جو اس سب کا ملک کہلاتا ہے، ایک ہونا چاہیے۔‘‘

آج ہمارا وطن عزیز جس دوراہے پر کھڑا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے آگے سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ ان حالات میں سر سید احمد خاں کے سیکولر افکار کو عملی جامہ پہنا کر ہی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی دھار کو کند کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined