الیکشن کے ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ہمیں اپنے بچپن کا وہ وقت یاد آگیا کہ جب ہم گھرکے باہرگلی میں اچانک ڈگڈگی کی آواز سن کر مداری کا تماشہ دیکھنے کے لئے ہمیشہ کھانا، پینا، پڑھنا، لکھنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے پہنچ جاتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج بھی وہ مداری وہی تماشہ دکھائے گا کہ جو وہ ہر بار دکھاتا رہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آجکل الیکشن کے دوران لیڈر صاحبان اپنے جلسے جلوسوں میں کررہے ہیں۔ یوں بھی ہمیں اس وقت پڑھائی لکھائی چھوڑنے کے لئے سب ہی بہانے بہت پسند تھے کیونکہ پڑھائی لکھائی جیسی رقیب تماشہ اور بورنگ شئی ہم نے اج تک نہ دیکھی نہ پڑھی۔ اگر کہیں غلطی سے ہم سب لوگ پڑھ لکھ جاتے تو پھر آجکل کی طرح ہم پر حکومت کون کرتا؟ اس کے لئے کسی مداری کے آنے کی قید نہیں تھی۔ بلکہ مداری کی آمد تو ہمارے لئے ایک ایسی آضافی نعمت غیر متوقع ہوتی تھی کہ جس کے لئے ہم ہر روز پڑھائی لکھائی کی دی گئی مشقت کی ابتداء ہی سے دعائیں مانگنا شروع کردیتے تھے۔ کسی دن بھی اس کی اچانک آمد پر اس کی دل آویز ڈگڈگی کی آواز کا سحر ہمیں کسی قاضی کے سنائے گئے اک عمر قید کے ملزم کی باعزت رہائی کے حکم سے کم نہ لگتا تھا۔
Published: undefined
مداری کے ان تماشوں کا فائدہ آگے چل کر ہمیں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ہمارے کچھ احباب کو تو بہت ہوا۔ کیونکہ بچپن میں ان مداریوں کے تماشے دیکھ دیکھ کران میں سے کچھ ساتھی تو ملک کی سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر بن کر ’مداری شپ‘ کے اعلی مدارج پر فائز ہوچکے ہیں اور تماشہ کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ آج کل کے کچھ سیاسی لیڈر تو ان مداریوں کو آج بھی اپنا گۡرو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر بچپن میں وہ بدقسمتی سے ان مداریوں کے 'اوپن ہاوس' کلاسوں میں اتنے ذوق و شوق سے حاضر نہ رہتے تو اج دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ مداریوں کے اس 'موبائیل' اسکول کے 'ڈراپ آوٹ' ہوتے تو یا توکسی ٹھیلے پر چائے اور پکوڑے بیچ رہے ہوتے اور یا چھوٹا موٹا ادیب بن کرمداریوں کے تماشوں پر مضامین لکھ کر قوم کا وقت برباد کررہے ہوتے۔
Published: undefined
الیکشن کے ان جلسوں میں ہمیں بندریا کا ناچ، جمورے کی پیشین گوئیاں اور رٹو طوطے کی رٹ سب ایک اسٹیج پر دیکھنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ دونوں ہی کے اختتام پر جیبیں کٹتی ہیں اس لئے دونوں طرح کے تماشے ان مداریوں کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔
Published: undefined
کئی بار ایک ہی تماشہ دیکھنے کے باعث ہمیں اب یہ بھی خبر رہنے لگی تھی کہ مداری اپنی شعبدہ بازیوں سے اپنے تھیلے میں سے سفید رنگ کا کبوتر نکالنے والا ہے۔ اور تھیلے سے وہی سفید کبوتر نکلنے پر ہم اس طرح تالیاں بجاکر مداری کو دادو تحسین دیتے تھے کہ گویایہ شعبدہ ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ جیسے ہم اج کل 'وکاس' اور 'دیش بھکتی' نام کے کبوتر کا اپنے سایسی لیڈروں سے زکر سن کر اب بھی اتنے ہی جوش میں تالیاں بجاتے ہیں کہ جیسے ان کا نام ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ دراصل اس میں سارا کمال مداری ہی کا ہوتا تھا۔ جس اعتماد سے وہ پرانی بار بار دوہرائی گئی کہانیوں اور قصوں کو ہمارے سامنے سناتا تھا اس سے ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ کہانی ہم پہلی بار سن رہے ہیں۔ اور جب اسی اعتماد کے ساتھ وہ ہماری جیبوں کے بچے کچے پیسے بھی جھڑوا لیتا تھا تو ہمیں ہرگز برا نہیں لگتا تھا۔ فن خطابت کے زور پر آج بھی جب کوئی ہماری جیبوں کے پیسے جھڑوا لیتا ہے توہمیں آج بھی برا نہیں لگتا۔ بس تماشا ختم ہوجانے پر اپنی جیبیں خالی پاکر کبھی کبھی اپنی معصومیت اور بھولے پن پرخود قربان ہونے کا دل چاہنے لگتا تھا۔
Published: undefined
کبھی کبھی جب مداری پیسوں کو دوگنا کرنے والا شعبدہ دکھاتا تھا اور جب وہ پیسے دوگنے نہیں ہوتے تھے تو وہ یہ وعدہ کرتا تھا کہ اگلی بار جب وہ واپس آئے گا تو پیسے دوگنے ہوچکے ہوں گے اور ہماری جیبوں میں خود بخود پہنچ جائیں گے۔ اور ہم اس اطمینان میں روزانہ صبح آٹھ کر اپنی جیبیں تلاش کرتے تھے مبادہ ہماری جیبیں رات بھرمیں پیسوں سے بھرنہ گئی ہوں۔ ویسے ہی جیسے ہم پچھلے پانچ برسوں سے اپنے بنک اکاونٹ میں لاکھوں روپئے جمع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
Published: undefined
ہمارے کچھ ساتھی یہ بھی کہتے تھے کہ مداری تماشہ کرنے سے پہلے ہم سب پرکچھ منتر پڑھ کر پھونک دیتا ہے۔ جس سے ہمارے سارے حواس منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس دوران وہ مداری ہماری آنکھوں کے سامنے کسی شئی کو یا تو غائب کردیتا ہے یا حاضر۔ حاضر کرنے کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے مگر کسی شئی کے غائب کرنے کے فن کے بارے میں تو ہم ذاتی تجربات رکھتے ہیں کیونکہ اکثر تماشے کے دوران ہماری جیب سے پیسے غائب ہوجاتے تھے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ بالکل اس طرح جس طرح نوٹ بندی کے بعد ہوا تھا یا جی ایس ٹی GST لگنے کے بعد ہمارے ساتھ آج کل ہونے لگا ہے۔
Published: undefined
اس فن مداریت کے طفیل ہم پر زندگی کے بہت راز منکشف ہوئے ہیں۔ مثلاً امید پر دنیا قائم ہے، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے یا مایوسی حرام ہے وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ طرز فکر بھی ہمارے مداری زدہ ماحول کی ہی مرہون منت ہے جس کے طفیل ہر صبح اپنی جیبیں خالی پانے کے باوجود بھی ہم مایوس نہیں ہوتے اور مداری کو اپنی جیبیں صاف کرنے کا بار بار موقع دیتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
لوگ کہتے ہیں کے مداری کا کمال اس کے جھوٹ بولنے کے فن میں مضمر ہوتا ہے۔ مگر جھوٹ اگر فن کے نام پر بولا جائے تو اسے جھوٹ نہیں سیاسی تدبر کہتے ہیں۔ یوں بھی آجکل جھوٹ کون نہیں بولتا۔ اب اس مداری ہی کوہی لے لیجئے۔ اگر وہ بے چارہ سچ بولنے لگے تو پھر وہ تماشہ کیا خاک کر پائے گا۔ اپنی بات منوانے کے لئے مجمع اکھٹا کرنا اور مجمع اکھٹا کرنے کے لئے تماشہ کرنا اور تماشہ کرنے کے لئے جھوٹ کو سچ بنانا کر پیش کرنا ہی دراصل ایک ایسا فن ہے کہ جو عام مداری کو قوم کا قائد بنا دیتا ہے اور قوم کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
Published: undefined
دونوں قسم کے مداریوں میں اکثر خصوصیات قدر مشترک ہوتی ہیں۔ مثلاً بندریا کا تماشہ کرنے والا مداری بھی اپنے اور اپنے جمورے کے پاپی پیٹ کی خاطر شعبدہ بازی کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے تو الیکشن والے مداری کی روٹی روزی کا دارومدار بھی بھولے بھالے عوام کو بہکانے کے لئے کذب و دورغ گوئی پر ہوتا ہے۔ اولذکر کے سامنے حاظر سامعین بھی اگر مداری کے اشاروں کے مطابق تالیاں بجاتے ہیں تو آخرالذکر کے سامعین بھی اس کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کی مناسبت سے اس پر داد و تحسین کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے مداریوں کے سامعین میں بھی بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
Published: undefined
اس کا ذاتی تجربہ کرنے کے لئے آپ کو کسی قریبی الیکشن جلسے میں جانا پڑے گا۔ بس ذرا اپنی جیبوں کا خیال رکھیے گا۔ کیونکہ ہماری جیب پچھلے الیکشن میں کٹ چکی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined