کرناٹک میں ریزرویشن کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے جس طرح ریاست کی ریزرویشن پالیسی میں پھیر بدل کی ہے اور درج فہرست ذاتوں میں داخلی ریزرویشن کوٹے کو سیاسی طور پر اثردار لنگایت اور ووکالیگا طبقات کے لیے بڑھایا ہے اس سے وبال پیدا ہو گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی حکومت نے مسلم طبقہ کو ریاست کے پسماندہ طبقہ سے ہٹا کر معاشی طور سے کمزور طبقہ میں شامل کر دیا ہے۔
Published: undefined
ان تبدیلیوں کو لے کر پیر کے روز ریاست کے کئی حصوں میں پرتشدد ہنگامہ دیکھنے کو ملا۔ اس پورے معاملے میں نشانے پر بی جے پی کے مضبوط مانے جانے والے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا ہیں۔ بی جے پی حکومت کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی میں پھیر بدل کی سب سے زیادہ مخالفت بنجارا یا لمبانی طبقہ کر رہی ہے۔ اس طبقہ نے شیوموگا ضلع میں یدی یورپا کے انتخابی حلقہ شکاری پورہ میں احتجاجی مارچ نکالا اور ان کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا۔
Published: undefined
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ یا تو یدی یورپا خود یا پھر ان کا بیٹا رکن پارلیمنٹ بی وائی راگھویندر آ کر ان سے عرضداشت لیں۔ اسی کو لے کر ماحول کافی کشیدہ ہو گیا اور پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ مظاہرہ کرنے والوں میں بنجارا-لمبانی طبقہ کے ساتھ ہی بھووی، کوراچھا اور کوراما طبقہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ سبھی کرناٹک کی درج فہرست ذاتوں کی جنرل ریزرویشن لسٹ میں ہیں۔
Published: undefined
دراصل کرناٹک کابینہ نے 24 مارچ کو درج فہرست ذاتوں کو دیئے جانے والے 14 فیصد ریزرویشن میں تبدیلی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت مجموعی طور پر 17 فیصد ریزرویشن میں سے 6 فیصد ایس سی (لیفٹ سَب سیکٹ) کو، 5.5 فیصد ایس سی (رائٹ سَب سیکٹ کو)، 4.5 فیصد بنجارا، بھووی، کوراچا، کوراما جیسی ذاتوں کو اور 1 فیصد الیمارس یعنی بنجاروں کو دینے کا انتظام کیا۔
Published: undefined
اس سے پہلے گزشتہ سال یعنی 2022 کے دسمبر میں کرناٹک اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں سیٹوں اور تقرریوں و عہدوں میں ریزرویشن دینے والا بل پاس کیا تھا۔ اس کے تحت درج فہرست ذاتوں کا کوٹہ 15 سے بڑھا کر 17 فیصد اور درج فہرست قبائل کا کوٹہ 3 سے بڑھا کر 7 فیصد کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
اسی ضمن میں ریزرویشن پر وزیر قانون جے سی مدھو سوامی کی صدارت میں بنی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کو جسٹس اے جی سداشیو کمیشن کی 2012 کی رپورٹ کا مطالعہ کر حکومت کو اپنی سفارشات دینی تھی۔ سداشیو کمیشن نے ہی درج فہرست ذاتوں میں داخلی طور پر لیفٹ، رائٹ، ٹچیبل اور دیگر کی تقسیم کی تھی۔ ریزرویشن میں داخلی کوٹہ میں پھیر بدل اسی ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
Published: undefined
سابق سدارمیا حکومت پر اس رپورٹ کو نافذ نہیں کرنے کے الزام لگتے تھے۔ سدارمیا 2013 سے 2018 تک کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ رپورٹ نافذ نہیں ہونے سے لیفٹ سَب سیکٹ ناراض ہوا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ریزرویشن کا فائدہ صرف سیاسی اور معاشی طور سے اثردار ذیلی ذاتوں کو ہی دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
کرناٹک کی ریزرویشن پالیسی میں رد و بدل کو لے کر کانگریس اور جے ڈی ایس دونوں نے بسوراج بومئی حکومت کی تنقید کی ہے۔ کانگریس رکن اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں پارٹی کے چیف وہپ پرکاش راٹھوڑ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت اس پھیر بدل کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی کو کمزور کر رہی ہے تاکہ ریاست کی 101 ذیلی ذاتوں میں یکسر جنگ شروع ہو جائے۔ راٹھوڑ خود لمبانی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت لمبانی یا بنجارا طبقہ کو درج فہرست ذات کے کوٹے سے باہر کرنا چاہتی ہے، جبکہ ریاست میں اس طبقہ کی آبادی 40 لاکھ کے آس پاس ہے۔‘‘
Published: undefined
اس درمیان بومئی حکومت کے ذریعہ ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کو لے کر مسلم طبقہ میں بھی زبردست ناراضگی ہے۔ حکومت نے مسلم طبقہ کے لیے ریزرو او بی سی کی 2 بی کیٹگری کے 4 فیصد کوٹے کو ختم کر دی ہے اور اس طبقہ کو معاشی طور سے کمزور طبقہ میں شامل کر دیا ہے۔ ای ڈبلیو ایس کیٹگری کے لیے مجموعی طور پر 10 فیصد کوٹہ مقرر ہے اور اس میں پہلے سے ہی اعلیٰ ذاتوں سمیت تمام ذاتیں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے لیے طے 4 فیصد کوٹہ کو لنگایت اور ووکالیگا طبقہ میں برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ لنگایت کے لیے 7 فیصد اور ووکالیگا کے لیے داخلی طور پر 7 اور 6 فیصد کوٹہ مقرر ہے۔
Published: undefined
مسلم طبقہ کو ای ڈبلیو ایس میں شامل کیے جانے پر کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئرمین کے. رحمن خان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو او بی سی سے باہر نکالنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ای ڈبلیو ایس میں شامل کیے جانے کے بعد پہلے سے ہی معاشی، تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ مسلم طبقہ کا مقابلہ اب برہمن جیسی اعلیٰ ذاتوں سے ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ لنگایت اور ووکالیگا تو کرناٹک کی اعلیٰ ذاتوں میں شمار ہیں، جنھیں پسماندہ طبقہ کا تمغہ دینے کی اب ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
سوال یہ ہے کہ آخر کرناٹک میں کس نے دیا تھا مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن؟ اسی کو لے کر طرح طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ جے ڈی ایس کا دعویٰ ہے کہ یہ کام ایچ ڈی دیوگوڑا نے کیا تھا جو 1994 سے 1996 تک کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ دوسری طرف کانگریس کا دعویٰ ہے کہ یہ کام ایم ویرپا موئلی حکومت کے دوران 1993 میں ہوا تھا۔
Published: undefined
ویرپا موئلی کہتے ہیں کہ انھوں نے مسلم طبقہ کو 4 فیصد ریزرویشن سماجی-معاشی بنیاد پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے سروے کے بعد دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ شروع میں مسلم طبقہ کو 6 فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا جسے بعد میں گھٹا کر 4 فیصد کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined