سنہ1857ء میں مسلمانوں نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کرنے کی بھاری قیمت چکائی، جس کی ناکامی کے دو تین عشروں کے بعد بھی انگریز ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کے پیاسے رہے جسے سر سید جیسے نابغۂ روزگار نے اپنی حکمت عملی سے ٹھنڈا کرنے کی مساعی جمیلہ کی۔
پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے بعد عبداللہ پنجابی نے 20 ستمبر 1871 کو چیف جسٹس مسٹر نارمن کلکتہ ہائی کورٹ کو اپنا حدف بنا کر تو 8 فروری 1872 کو شیر علی خاں آفریدی نے چوتھے وائسرئے لارڈ مایو کا شکار کر کے انگریزوں کو پے درپے دو کاری زخم دیے۔ مگر برطانوی حکام نے ان وارداتوں کو طول نہ دے کر آناً فاناً میں پھانسی دے کر قصہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن زخم بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی کے مماثل 1913 میں شیخ الہند محمود الحسن کی ریشمی رومال تحریک سے انگریزوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ جن کی ایما پر ان کے شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی نے افغانستان میں عارضی آزاد ہند حکومت کی تشکیل کی۔ اسی اثنا میں 1915ء کے اوائل میں رنگون اور سنگاپور میں تعینات بلوچ رجمنٹ اور پانچویں لائٹ پیادہ دستہ سنگا پور جس میں مسلمانوں کی کثیر تعداد تھی، انگریزوں کے خلاف بغاوت بلند کی تو دو افسروں کو پھانسی، 43 کو گولی کا نشانہ بنا کر اور باقی فوجیوں کو کالے پانی کی سزا دے کر اسے دبا دیا گیا۔ 17 مارچ 1917ء کو امپیریل لیجسلیٹو کونسل نے رولٹ ایکٹ پاس کر کے حکومت کو ہندوستانیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا نیا ہتھیار فراہم کیا۔ جس کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرہ ہوئے۔ سیف الدین کچلو کو امرتسر میں مظاہرے سے روکنے کے لیے گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ اس قدم کے خلاف جلیانوالہ باغ میں 13 اپریل 1919 کو سیف الدین کچلو کا پورٹریٹ صدارتی کرسی پر رکھ کر مظاہرہ کیا گیا۔ اس پرامن جلسہ پر جنرل ڈائر نے 20 منٹ تک بے دریغ فائرنگ کرائی جس میں غالباً 74 سے زیادہ مسلمانوں نے شہادت پائی۔
Published: undefined
23 نومبر 1919ء کو پہلی خلافت کانفرنس منعقد ہوئی، جس کے زیر اہتمام گاندھی جی اور علی برادران نے پورے ملک کے دورے کیے اور 5 ستمبر 1920ء کو تحریک عدم تعاون کا آغاز کیا۔ اسی بیچ 27 دسمبر 1921 کو احمد آباد کے کانگریس اجلاس میں انقلاب زندہ باد نعرے سے متعارف کرانے والے حسرت موہانی نے گوریلا وار اور کامل آزادی کی تجویز پیش کر کے کانگریسی خیمہ میں ہلچل مچا دی، جسے سنتے ہی گاندھی جی حیرت زدہ رہ گئے، اور انہوں اسے مسترد کرنے میں دیر نہ لگائی۔ مالابار صوبہ کیرالہ کے موپلا مسلمانوں نے 1921 میں برطانوی سرکار کے خلاف اعلان جنگ کر کے انگریز اور ان کے منھ چڑے زمینداروں کو دن میں تارے دکھا دیے۔ ایام تحریک عدم تعاون 4 فروری 1922ء کو چوری چورہ سانحہ رونما ہوا، جس کے روح رواں شہید عبداللہ کو 2 جولائی 1922 اور ان کے ساتھی لعل محمد، نذر علی کو 22 جنوری 1923 کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ لیکن اب ہندوستانی انقلابیوں کا کارواں رکنے والا نہیں تھا کیونکہ سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ گاتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ چنانچہ 9 اگست 1925 کو ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کارکنوں نے کاکوری میل واردات انجام دی، جس میں اشفاق اللہ خاں پیش پیش تھے۔ جس کے جرم میں انہیں 27 دسمبر 1927 کو فیض آباد جیل میں تختہ دار کی سزا دی گئی۔ 6 اپریل 1930ء کو گاندھی جی نے ڈانڈی مارچ سے سول نافرمانی تحریک کا بگل بجایا۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے گاندھی جی اور کانگریس کے دیگر اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غالباً 90 ہزار لوگوں سے جیلیں بھر دی گئیں۔ جس میں نصف تعداد مسلمانوں کی تھی۔
Published: undefined
خان عبدالغفار خاں نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں سول نافرمانی تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے دورہ شروع کیا، جنہیں جابر حکام نے دورہ پورا کرنے سے قبل ہی گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ سے 23 اپریل 1930ء کو پشاور کے قصہ خوانی بازار سانحہ رونما ہوا، جس میں غیر مصدقہ تخمینے کے مطابق 400 سے زیادہ غیر مسلح افراد نے اپنے سینوں پر گولی کھائی اور 500 افراد زخمی ہوئے۔ مولانا آزاد کی صدارت میں 8 اگست 1942ء کو گاندھی جی نے ایک نئے نعرے کے ساتھ تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تو یوسف جعفر مہر علی نے فوراً انگریزوں بھارت چھوڑو کا نعرہ گاندھی جی کے روبرو پیش کیا۔ بھارت چھوڑو پرجوش نعرے کے عنوان سے بمبئی کے گوالیا ٹینک میدان میں کانگریس کا اجلاس شروع ہوا، جس نے انگریزوں کے اندر بے چینی اور خوف و حراس پھیلا دیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق اس تحریک میں ملک کے مختلف مقامات پر 30 مسلمانوں نے اپنی جانیں نثار کیں۔
Published: undefined
نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کا ذکر کیے بغیر تحریک جنگ آزادی نامکمل رہے گی۔ مسلمانوں نے نیتا جی کا مالی تعاون دل کھول کر کیا۔ جنہیں عبدالحبیب یوسف مارفانی نے 9 جولائی 1944ء کو رنگون سٹی ہال میں ایک کروڑ 34 لاکھ کا چندہ دیا تو ان کی بیگم نے بھی اپنے تمام زیورات اور جواہر انیتا جی کی جھولی میں ڈال دیے۔ سیٹھ حبیب اللہ نے بھی ایک کروڑ روپے کا چندہ آزاد ہند فوج کو دیا، بتاریخ 21 جولائی 1944ء نیتاجی کے گلے میں ڈالے گئے ہاروں کو بیگم عبدالحبیب مارفانی اور بیگم آدم جی داؤد نے کئی لاکھ میں خریدا تو اسی وقت احمد ابراہیم اینڈ برادرس نے 30 لاکھ روپے اور حاجی داؤد اینڈ کمپنی نے بھی 15 لاکھ روپے کا عطیہ دیا اور جب نیتا جی بہادر شاہ ظفر کے مزار پر گئے تو حبیب سیٹھ نے 5 لاکھ روپیہ کا چندہ دیا اور میمن برادری کے خواتین و حضرات سے 6 کروڑ روپے دلوائے۔ آزاد ہند فوج میں جنرل شاہ نواز خاں، میجر جنرل عزیز احمد خاں، کرنل احسان قادر، کرنل محبوب احمد، میجر عابد حسن زعفرانی اور عباس علی وغیرہ اعلی افسران تھے۔ جے ہند نعرے کے موجد میجر عابد حسن زعفرانی نیتا جی کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ آزاد ہند فوج کے 24 مسلم سپاہیوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کا سامنا کیا تو تقربیاً 154 مسلمانوں نے مختلف محاذوں پر اپنی جانیں قربان کیں۔
Published: undefined
فروری 1946ء میں بحری فوج کی بغاوت نے برٹش انڈیا کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی، جس کی تائید میں ملک کے مختلف گوشوں میں جلسے جلوس نکالے گئے۔ جس کے نتیجہ میں متعدد لوگ زخمی اور شہید ہوئے جس میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔
اگر تحریک جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کے کردار پر غیر جانب دارانہ روشنی ڈالی جائے تو یہ بات خود بخود عیاں ہو جائے گی کہ غلامی کا طوق اتار پھینکنے میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آج حالات اس موڑ پر آ چکے ہیں کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ لہٰذا ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کے تحت تاریخ ہند کو ’مسلم مکت‘ کرنے کی بھرپور کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن تاریخ ہند کے اوراق پر مسلمانوں کی قربانیوں کی لازوال اور انمٹ داستان کے نقوش درج ہیں جنہیں نظر انداز یا چھپایا تو جا سکتا ہے، مگر ہرگز مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز