گزشتہ سال جولائی میں سامنے آیا تھا کہ حکومت ہند فوجی سطح کے ایک سافٹ ویئر کا استعمال کر اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ جن لوگوں کی جاسوسی ہو رہی تھی، ان میں صحافی، اپوزیشن لیڈر اور جنسی استحصال کا شکار ہو چکے لوگ تھے۔ یہ انکشاف عالمی حقوق انسانی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل (میں اسی گروپ کا حصہ ہوں) کے ذریعہ کیے گئے ایک ٹیکنیکل ریسرچ اور ویریفکیشن کے بعد ہوا تھا۔
ہندوستان تنہا ایسا ملک نہیں ہے جس نے پیگاسس نام کے اس سافٹ ویئر کو استعمال کیا تھا۔ دراصل کئی ملک اسرائیل کی ایک کمپنی کے ذریعہ تیار اس سافٹ ویئر کا استعمال کر رہے تھے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اس سافٹ ویئر کو صرف سرکاروں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ پیگاسس کے ذریعہ آئی فون کو متاثر کر دور بیٹھ کر بھی اس میں سے ضرورت کی ساری جانکاریاں حاصل کی جا سکتی ہیں، اور فون استعمال کرنے والے کو اس کی خبر تک نہیں لگے گی۔ پیگاسس ایک بار فون میں آ گیا تو پھر اس سافٹ ویئر کے ذریعہ ہیکر کے پاس اس کا پورا کنٹرول ہوتا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ امریکی سفیر بھی اس کے نشانے پر رہے ہیں تو امریکی حکومت نے پیگاسس تیار کرنے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کو بلیک لسٹ کر دیا۔
Published: undefined
اس سے این ایس او کو فکر ہوئی کہ کہیں برطانیہ میں بھی اسے بلیک لسٹ نہ کر دیا جائے۔ این ایس او گروپ نے گزشتہ سال اکتوبر میں ایسا انتظام کر دیا کہ 44+ (برطانیہ کا بین الاقوامی کوڈ) سے شروع ہونے والا کوئی بھی نمبر ہیک نہ ہو سکے۔ اسی طرح اکتوبر میں ہی این ایس او گروپ کے افسر فرانس گئے اور بھروسہ دلایا کہ کسی بھی فرانسیسی کی اب کوئی جاسوسی پیگاسس کے ذریعہ نہیں ہوگی۔ ایسا تب کیا گیا جب فرانسیسی خفیہ ایجنسی نے تصدیق کی کہ اس سافٹ ویئر کے ذریعہ ایک غیر ملکی حکومت اس کے عام شہریوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔
Published: undefined
تو سوال ہے کہ اس معامے میں ہندوستان کا اب تک کیا رخ رہا ہے؟
پہلا رد عمل تو ہندوستان کی طرف سے یہ رہا کہ اس انکشاف کو ہی خارج کر دیا گیا۔ وزراء کی طرف سے کہلوایا گیا کہ چونکہ یہ ریسرچ اور انکشاف ایمنسٹی نے کیا ہے، اس لیے یہ جھوٹا ہے۔ اس کے بعد کہا گیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خود ہی اس دعوے کو واپس لے لیا ہے (حالانکہ یہ بات جھوٹ ہے)۔ پارلیمنٹ میں حکومت نے کہا کہ کسی پر بھی غلط طریقے سے جاسوسی نہیں ہوئی ہے، جو کہ اصل میں اس معاملے پر پوچھے گئے سوال کا جواب تھا ہی نہیں۔ آخر کس قانون کے تحت برسراقتدار پارٹی کے ذریعہ اپوزیشن کی جاسوسی کرائی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دیا ہی نہیں گیا۔
Published: undefined
حیرت کی بات یہ تھی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے انکشاف میں ان وزراء (اشونی ویشنو) کے نام بھی سامنے رکھے تھے جو پارلیمنٹ میں حکومت کا دفاع کر رہے تھے۔ ایمنسٹی نے جو انکشاف کیا اس سے انکار کیا ہی نہیں گیا۔ انکشافات میں کہا گیا تھا کہ ’’صحافیوں سمیت تمام ہندوستانی شہری، جنسی استحصال کے شکار، عدلیہ سے جڑے لوگ اور میڈیا کی جاسوسی کی جا رہی تھی۔‘‘ دوسری بات، اس کام کو فوجی سطح کے سافٹ ویئر کا استعمال کر کے کیا جا رہا تھا جو صرف حکومتوں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ تیسری بات کہ یہ سافٹ ویئر سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کر کے خریدا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے، لیکن اس بارے میں کسی کے بھی خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
Published: undefined
سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ رہی کہ سپریم کورٹ بھی حکومت سے نہ تو اس کی تصدیق کرا سکیا اور نہ ہی تردید کرا سکا کہ حکومت پیگاسس کو استعمال کر رہی تھی یا نہیں۔ عدالت نے کوشش تو کی لیکن حکومت نے اس بارے میں کوئی حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ عجیب سی بات یہ بھی ہوئی کہ حکومت نے کہہ دیا کہ وہ ایک کمیٹی بنائے گی جو پتہ کرے گی کہ حکومت نے پیگاسس استعمال کیا یا نہیں۔
مدلل بات تو یہ ہوتی کہ عدالت حکومت کو اس معاملے میں حکم عدولی کا ذمہ دار ٹھہراتی۔ عدالت نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے کورٹ نے حکومت کے اس رخ کو مان لیا کہ وہ کمیٹی بنا دے گی۔ اس کمیٹی کا کام یہ پتہ لگانا ہے کہ مودی حکومت نے پیگاسس کا استعمال کر ہندوستانیوں کی جاسوسی کی یا نہیں۔ اس سوال کا جواب تو عدالت کو خود ہی دینا چاہیے تھا، لیکن یہ جواب ویسے ہی دے دیا گیا جیسا کہ اسکول میں کھو کھو کے کھیل میں ہوتا ہے، کہ اب کوئی اور اسے سنبھالے۔
Published: undefined
پانچ مہینے ہو گئے اس کمیٹی کو۔ اس نے فروری میں اپنی ایک عبوری رپورٹ داخل کر دی ہے (آخر رپورٹ عبوری کیوں ہے، وہ بھی ایسے سوال کی جس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہونا ہے)۔ لیکن ہم ہندوستانیوں کو پتہ ہے کہ کمیٹیاں بننے کے بعد کسی بھی معاملے کا کیا ہوتا ہے۔
چلیے اس معاملے کے دوسرے پہلو کی بات کرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہماری جمہوریت نے اس معاملے کو کیسے لیا اور امریکہ، فرانس یا برطانیہ جیسی جمہوریتوں نے اس پر کیسا رد عمل ظاہر کیا۔ ویسے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانی عام طور پر پرائیویسی جیسے معاملوں میں بے توجہ رہتے ہیں، خصوصاً اگر وہ دوسروں سے جڑا ہو۔ سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب بات پرائیویسی اور عزت کی ہو تو ان کا رویہ یہی رہتا ہے کہ ’ہمارے پاس چھپانے کو ہے ہی کیا؟‘ بھول جائیے اس بات کو کہ ہندوستانی قانون پرائیویسی کے حقوق کو بنیادی حقوق مانتا ہے لیکن پھر بھی حکومت اس میں مداخلت کرتی ہے۔
Published: undefined
بڑا ایشو یہ ہے کہ برسراقتدار پارٹی اپنے مخالفین اور میڈیا کے خلاف مجرمانہ جاسوسی کر رہا ہے، پھر بھی یہ سیاسی ایشو نہیں بنتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کا غلط استعمال نہ صرف عام بات ہے بلکہ ایسی ہی امید بھی ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے مستقبل کے لیے فکر انگیز اشارہ ہے۔
فکر کی دوسری وجہ ہے ایسے معاملوں میں حکومت کو جواب دہ بنانے کی عدلیہ کی نااہلی اور اپنے حقوق کا استعمال کرنے کی عدم خواہش۔ طویل مدت سے اس حکومت کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ اقتدار کے بنٹوارے اور جوابدہی کے معاملے میں کاغذات پر جو سچ لگتا ہے وہ کاغذات پر ہی رہ گیا ہے۔ یہ بھی ایک فکر انگیز اشارہ ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک مضبوط لیڈر سیاست کو اپنی مرضی سے موڑ سکتا ہے (جیسا کہ 1970 کی دہائی میں ہوا تھا)۔
Published: undefined
پیگاسس پر جانچ کمیٹی کیا نتیجہ نکالتی ہے، یہ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے، لیکن یہ ہم میں سے کئی لوگوں کے لیے حیرت انگیز اور یہاں تک کہ ششدر کرنے والا ہوگا، اگر کمیٹی اس جاسوسی کے لیے مودی حکومت کو جواب دہ ٹھہرا سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز