مریانا بابر
اڈیالہ جیل، راول پنڈی، پاکستان
قیدی نمبر:3421تین بار پاکستان کے وزیر اعظم
قیدی نمبر 3422 :سابق وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز شریف
ایمریٹس ائیر لائنس کی فلائٹ نمبر ای وائی243 کی فرسٹ کلاس میں مہنگی ڈیزائنر پوشاک میں تصویر کھچوانے کے بعد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کی منزل تھی راول پنڈی کی اڈیالہ جیل ۔ اسی جیل میں ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ لشکر کا لکھوی بھی قید ہے ۔
دونوں باپ بیٹی قیدیوں کے لباس میں آ ج ایسی جگہ پر ہیں جہاں زندگی کی ایک اور سچائی کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بستر نہیں، فرش پر بچھے معمولی گدے اور قریب میں بنے ٹائلٹ سے آتی نا قابل برداشت بدبو یہ ہے زندگی کی ایک نئی سچائی ۔ اس سب کے درمیان پاک فوج کا ہیڈ کواٹر راول پنڈی غصہ سے لال پیلا ہو رہا ہے کیونکہ شریف کی واپسی کا تو انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
دوسری جانب نواز شریف ہیں جو بستر مرگ پر پڑی اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی مریم کے ساتھ قید میں رہنے کے لئے لندن سے پاکستان واپس آ گئے۔ پچھلی مرتبہ تو انہوں نے سودا کر لیا تھا جس کی بدولت انہیں سعودیہ کا دس سال شاہی مہمان بننے کا موقع ملا تھا اور پھر اسی شاہی خاندان نے ان کی پاکستان واپسی کا راستہ بھی کھلوایا تھا۔
نواز شریف نے واپس آکر اپنا ترپ کا پتہ چل دیا ہے جس سے نہ صرف ان کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں جوش پیدا ہو گیا ہے بلکہ انتظامیہ کے اس منصوبہ کو بھی جھٹکا لگا ہے جس میں مسلم لیگ کو کمزور کر کے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مظبوط کرنا شامل تھا۔
سینئر صحافی اور سیاسی مبصر نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ’’نواز شریف اور مریم بھلے ہی سیاسی میدان میں نہ نظر آ ئیں لیکن ان کے بھائی شہباز شریف کسی حد تک اس جگہ کو بھر پائیں گے جو آج فوجی انتظامیہ کے قبضہ میں ہے۔جیپ پارٹی، بلوچستان کی عوامی پارٹی، ایم کیو ایم کے کچھ دھڑے، فاٹا کے کچھ آزاد امیدوار وغیرہ ایسے لوگ ہیں جو پارلیمنٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو فوجی انتظامیہ کے قابو میں رکھنے کا کام کریں گے‘‘ ۔
شریف کی واپسی سے قبل لاہور میں جس طرح کا ایمرجنسی جیسا ماحول تھا وہ صاف ظاہر کر رہا تھا کہ کس طرح فوجی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔اس سب کے درمیان نواز شریف نے آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید پر الزام لگایا کہ اس سال کے عام انتخابات سب سے خراب ہوں گے ۔ فیض حمید آئ ایس آئی کے چیف ہیں اور آئ ایس آئی ہی نے لاہور میں ایک مہینے کے لئے ناکا بندی کا مشور دیا ہے اور سخت گیر تحریک لبیک کے ساتھ سمجھوتہ پر دستخط کئے ہیں۔
ادھر پاکستان پیپلس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور بے نظیر بھٹو کے قریبی رہے فرحت اللہ بابر نے بھی کھل کر فوج کے تین کرنل پر انتخابات کو متاثر کرنے اور امیدواروں کو دھمکیاں دینے کے الزام لگایا ہے ۔ بابر بے نظیر کے بیٹے بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں ڈی آئ خان میں کرنل موعیز ، سککور میں کرنل عابد علی شاہ اور بدین میں میجر شہزاد پر انتخابات کو متاثر کرنے اور امیدواروں کو دھکمیاں دینے کا الزام لگایا ہے۔واضح رہے اس سے قبل فوج نے پاکستان کے عام انتخابات میں اتنی کھل کر دخل اندازی کبھی نہیں کی ۔
انتخابات سے قبل نواز شریف ایک مرتبہ پھر ضمانت کے لئے درخواست دے کر ووٹنگ سے پہلے جیل سے باہر آنے کی درخواست کریں گے جبکہ ان کو کسی راحت کی امید نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ اس وقت پوری طرح فوج کے اثر میں ہے۔ سپریم کورٹ نے کس طرح پاکستانی عدلیہ کا مزاق بنا رکھا ہے اس کی عکاسی معروف وکیل بابر ستار کے اس بیان سے ہوتی ہے ’’آپ شریف اور مریم کو جیل میں سڑتے دیکھنا چاہتے ہو ں یا نہیں یہ آپ کی مرضی ہے لیکن سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس نے پاکستانی عدلیہ سے جڑے ہر شخص کو شرمندہ کیا ہے ‘‘۔
پاکستان کے حالیہ انتخابات سب سے زیادہ پر تشدد ہونے کے لئے بھی یاد کئے جائیں گے ۔ خود کش حملوں میں اب تک سینکڑوں افراد کی جان جا چکی ہے ۔ اس کے باوجود فوجی سربراہ جنرل باجوا کا کہنا ہے کہ فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔ سلامتی کے خطرے کے پیش نظر امیدواروں نے اپنی تمام بڑی ریلیاں رد کردی ہیں اور وہ خوفزدہ ہیں ۔ اتنا ہی نہیں انتخابات میں کچھ سیٹیں جیتنے کے لئے دہشت گرد اور سخت گیر گروپوں کی مدد کے لئے سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور میں تبدیلیاں کر رہی ہیں اور وہ اسلام کو مرکز میں رکھ رہی ہیں ۔
ابھی فوجی انتظامیہ کو پاکستان میں معلق پارلیمنٹ کی امید ہے جس میں کسی بھی ایک پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملے گی اس نے تحریک لبیک جیسی تنظیم جس پر پابندی عائد تھی اور اس نے لگ بھگ200 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے تاکہ اس پارٹی کے ذریعہ پارلیمنٹ میں فوج اپنی پکڑ بنائے رکھے ۔ پیپلس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رضا ربانی فوج کی اس کوشش کو انتہائی خطرناک بتاتے ہیں ’’ٹی ایل پی ( تحریک لبیک پارٹی) کے جن لوگوں نے فیض آباد میں دھرنا دیا تھا اس میں سے ہی 150 افراد چناوی میدان میں ہیں ۔ اللہ و اکبر تحریک بھی چناؤ لڑ رہی ہے اور اگر ان میں سے 25 افراد بھی جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے تو سوچئے کیا حال ہو گا۔ پاکستانی اخبار ’ڈان‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’ دراصل2018 کا چناؤ جمہوریت حامیوں اور اس کی مخالف قووتوں کے درمیان ہے‘‘۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز فوجی تاناشاہ ضیا الحق کے دور میں شروع کیا تھا لیکن 2018 کے انتخابات میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں وہ بہت خطرناک ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب میڈیا کو سیلف سینسرشپ کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔ صحافیوں کی غیر قانونی حراست اور دھمکیاں عام ہیں جس سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ اس کی وجہ سے اب اخباروں سے زیادہ سوشل میڈیا پر مضامین نظر آ رہے ہیں جس سے پاکستان کے ایک سڑے ہوئے نظام کی حقیقت سامنے آ تی ہے ۔ یوروپی یونئن کے الیکشن آبزرور مشن جیسے اداروں کا صاف کہنا ہے کہ لال فیتا شاہی کی وجہ سے انہیں انتخابات کی اصلی تصویر ملنے میں دشواری آ رہی ہے ۔
حالات اور فوج کی حکمت عملی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے اگلے وزیر اعظم عمران خان ہوں گے اور شہباز شریف کو پنجاب تک محدود کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی فوج کے ساتھ دفاع، خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کو لے کر اختلافات جلد شروع ہو جائیں گے کیونکہ یہ وہ دیپارٹمنٹ ہیں جن پر فوج اپنا قبضہ چاہتی ہے۔
پاکستانی فوج کا جو نیا منتر ہے وہ یہ ہے کہ پرانی غلطیوں سے سیکھو انہیں دہراؤ مت اور نئی غلطیاں کرو ۔ ایسا ہوگا عمران خان کا نیا پاکستان ۔
Published: 20 Jul 2018, 7:59 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Jul 2018, 7:59 AM IST
تصویر: پریس ریلیز