غالباً 2002 کی بات ہے جب میرے چچا زاد بھائی نے مجھے اپنے ایک غیر مسلم دوست کے متعلق بتایا تھا کہ وہ اسلام کے اہم رکن روزہ کو کافی پسند کرتا ہے اور اگر اسے اپنے گھر والے و دیگر رشتہ داروں کا خوف نہیں ہوتا تو وہ بھی رمضان کے روزے رکھتا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے دیگر ارکان پر بھی عمل کرتا۔ اس غیر مسلم لڑکے کا نام یشونت تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی کہ کیا روزہ یا اسلام کا کوئی رکن غیر مسلموں کو بھی اتنا متاثر کر سکتا ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی ہمت کر سکے؟ ایک عرصہ تک مجھے اس سوال کا مثبت جواب نہیں ملا تھا، لیکن آج میرے سامنے کئی ایسے نام ہیں جو غیر مسلم ہونے کے باوجود نہ صرف روزہ رکھ رہے ہیں بلکہ اس کے فوائد کا بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ کندن یادو، لتا حیا، اسمیتا مانڈو ، گلزار دہلوی، چندن کمار، آندھی سنگھ۔۔۔ ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جنہوں نے مذہبی بندشوں کو توڑتے ہوئے اپنے نفس کی آواز سنی اور روزہ رکھتے ہوئے روحانی سکون کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی حاصل کیں۔
بنارس کے نگوا سے تعلق رکھنے والے کندن یادو نے جب روزہ رکھنا شروع کیا تھا تو انہیں ان کے فوائد کے بارے میں زیادہ کچھ پتہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے دل کی آواز سنتے ہوئے اپنے دوست نفیس احمد کے ساتھ روزہ رکھنا شروع کیا۔غازی آباد میں کسٹمز ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ کمشنر کندن یادو کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ شام میں فٹ بال کھیلا کرتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ کہیں کمزوری اثرانداز نہ ہو جائے لیکن آج وہ اعتراف کرتے ہیں کہ روزے نے ان کے روز مرہ کے معمولات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا، بلکہ اس سے انہیں کئی فائدے حاصل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے اس سے ایک فائدہ یہ پہنچا کہ نہ صبح میں ناشتے کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی دوپہر کے کھانے کی۔ مجھے یاد ہے کہ رمضان کا ایک مہینہ ایسا بھی گزرا جس دوران میں نے تقریباً 74 کتابوں کا مطالعہ کیا‘‘۔ کندن یادو کا ماننا ہے کہ رمضان کے روزے لوگوں کو ڈسپلن میں رہنا سکھا دیتے ہیں اور غلط کام سے روکتے ہیں۔ جے این یو میں گزارے رمضان کے اوقات کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’’ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ رمضان کے دوران ہماری بدمعاشیاں بند ہو جاتی تھیں۔ ’ماموں‘ کا ڈھابہ، جہاں سے ہم لوگ کبھی بسکٹ اور کبھی دوسری چیزیں شرارتاً لے کر بھاگ جایا کرتے تھے، یہ سب بند ہو جاتا تھا‘‘۔
معروف شاعرہ لتا حیا روزہ کے تعلق سے کافی سنجیدہ نظر آتی ہیں اور اسلام میں روزہ کے تصور کو دوسرے مذاہب میں موجود روزوں سے مختلف اور مثبت تبدیلی کا حامل مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں رمضان کا روزہ رکھنے سے قبل ہندو مذہب میں موجود ’ورَت‘ رکھا کرتی تھی، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کا رمضان کے روزوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ شیوراتری یا دیگر ورَت میں جوس اور دوسری کچھ چیزوں پر پابندی نہیں ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بچپن میں ہم لوگ یہ سوچ کر ورَت رکھا کرتے تھے کہ روز مرہ کے کھانوں سے الگ اچھی اچھی چیزیں کھانے کو ملیں گی۔ گویا کہ ورَت ہم لوگوں کے لئے صرف ’مزے‘ کی چیز تھی۔ لیکن روزہ کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ روزہ میں وقت مقررہ سے قبل پانی پینے پر بھی پابندی رہتی ہے اور اس عمل کے نہ صرف نفسانی بلکہ جسمانی فوائد بھی بے پناہ ہیں‘‘۔
وسطی ممبئی میں ذاتی کاروبار سے منسلک اسمیتا مانڈو اور نوئیڈا میں مقیم ہردلعزیز شاعر آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تو عرصۂ دراز سے پابندی کے ساتھ روزے رکھ رہے ہیں۔ جہاں اسمیتا کو روزہ سے ان کی صحت میں بہتری اور کاروبار میں ترقی نظر آ رہی ہے، وہیں گلزار دہلوی کی نظر میں روزہ نفس کو پاک کرنے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ گلزار دہلوی اپنے کئی پرانے مسلم ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ان لوگوں کے ساتھ روزہ کا اثر دو بالا ہو جاتا تھا اور ایک ساتھ افطار کرنا بالکل سحر انگیز معلوم ہوتا تھا۔ آج وہ نہیں ہیں لیکن رمضان کے موقع پر ان کی یادیں ضرور تازہ ہو جاتی ہیں‘‘۔
پورنیہ کے باشندہ 33 سالہ چندن کمار یادو بھی روزوں کی اہمیت و افادیت سے آشنا ہو چکے ہیں۔ 2005 سے بلاناغہ روزہ رکھنے والے چندن کہتے ہیں کہ ’’روزہ نے انہیں جسمانی طور پر نہ صرف صحت مند بنایا بلکہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر بھی پہنچایا‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ سحر سے لے کر افطار تک بھوکے رہنے کا نام روزہ نہیں ہے۔ اصل روزہ تو یہ ہے کہ اس دوران غلطیوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے اور اپنے اندر خوبیوں کا ایک ایسا گہرا سمندر پیدا کیا جائے جس سے دوسرے لوگ بھی فیضیاب ہو سکیں۔
مغربی چمپارن کے گڑھوا بازار مندر کو اپنی رہائش گاہ تصور کرنے والے آندھی سنگھ کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان سے متعلق بنگلور میں واقع ’ریٹنگز انٹیلی جنس‘ میں بطور ریسرچ انالسٹ کام کرنے والے آفتاب عالم بتاتے ہیں کہ ’’وہ 12-15 سال سے روزے رکھ رہے تھے اور ضعیفی میں بھی انہوں نے روزہ رکھنا نہیں چھوڑا تھا‘‘۔ آفتاب عالم مزید بتاتے ہیں کہ ’’وہ اکثر ہمارے یہاں سے افطار لینے آتے تھے اور جب روزے سے متعلق ان سے پوچھا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ انہیں اس میں ایک کشش نظر آتی ہے اور روزہ ان کے لئے عجیب و غریب تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے‘‘۔
معلوم نہیں کہ یشونت آج کہاں ہے اور اسے روزہ رکھنے کی ہمت ہوئی یا نہیں۔ لیکن اتنا ظاہر ہے کہ جس نے بھی روزہ رکھنے کی ہمت کی اور اس کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ عمل کیا، اسے نہ صرف ذہنی سکون حاصل ہوا بلکہ خود پر قابو پانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایک درد مند اور مخلص انسان کا ’دِل‘ بھی حاصل ہوا۔ اس کے اندر سے خرابیاں فنا ہو گئیں اور اس کی جگہ اچھائیوں نے لے لی۔ خلوص جذبہ کے ساتھ روزہ رکھنے والے انسان کے اندر ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے نہ صرف کامیاب لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے بلکہ دوسروں کی نظر میں اس کا وقار بھی بلند کر دیتی ہے۔ واقعی ایسا صرف ’روزہ‘ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے، اور وہ بھی اُس روزے سے جس کا تصور اسلام میں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined