حج 2018 بحسن و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ حجاج کی وطن واپسی آخری مرحلے میں ہے۔ خاکسار نے بھی امسال دہلی حج کمیٹی کے توسط سے فریضہ حج کی ادائیگی کی۔ عام طور پر حجاج کی جانب سے حج انتظامات کے تعلق سے شکایتیں کی جاتی ہیں۔ وہ ہندوستانی اور سعودی حکومت اور متعلقہ حج کمیٹیوں کے انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی بے اطمینانی کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔
اگر ہم حج انتظامات کا جائزہ لیں تو اس کو دو پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سعودی حکومت کے انتظامات اور دوسرا حکومت ہند اور یہاں کی ریاستی حج کمیٹیوں کے انتظامات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سبھی بہتر سے بہتر انتظامات کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ سعودی حکومت کے انتظامات بھی قابل اطمینان ہوتے ہیں۔ اس کو بھی دو پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا مہمان حاجیوں کے ساتھ وہاں کی حکومت کا سلوک اور دوسرا عام حاجیوں کے ساتھ اس کا رویہ۔ مہمانوں کے کئی زمرے ہوتے ہیں اور ہر مہمان کے ساتھ شاہانہ برتاؤ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی شخصیات کی جانب سے انتظامات کے حوالے سے بہت مثبت بیانات آتے ہیں۔ عام حاجیوں کے تعلق سے بھی اس کا رویہ اور انتظام دونوں قدرے اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں انسانی پہلو پر تھوڑی اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر ہر حاجی کسی نہ کسی معلم کے تحت ہوتا ہے۔ کچھ معلم سنجیدگی سے اپنا کام کرتے ہیں اور کچھ لاپروائی دکھاتے ہیں۔ بالخصوص منیٰ میں حاجیوں کے قیام و طعام، عرفات میں ان کو لے جانا، پھر واپس مزدلفہ اور منیٰ لانے کے معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر کھانوں کی بھی شکایت ہوتی ہے۔ حماموں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ان میں صفائی ستھرائی کا بھی فقدان ہے۔ ان معاملات کو بھی بہتر کیا جانا چاہیے۔ جب حاجی رمی کرنے جمرات جاتے ہیں تو سڑک کی دونوں جانب بڑی تعداد میں سیکورٹی جوان اور رضاکار تعینات ہوتے ہیں۔ وہ ٹریفک کو کنٹرول کرتے ہیں اور ضرورت مند حاجیوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ یہ مدد ہر جگہ نظر آتی ہے۔ البتہ وہاں تعینات جوانوں کو اس بات کی تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ حجاج کے ساتھ مزید انسانی رویے کا مظاہرہ کریں۔ مثال کے طور پر منیٰ سے جمرات آمد و رفت میں کم از کم پانچ 6 کلومیٹر پیدل چلنا ہوتا ہے۔ یہ جوان کسی کو بھی سستانے کے لیے بھی سڑک کے کنارے کھڑے نہیں ہونے دیتے۔ خواہ وہ معمر ہو، مریض ہو، کمزور ہو، عورت ہو یا بچہ ہو۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیمے ہی میں جا کر رکیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے حجاج کو زبردست جسمانی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔
حرم شریف میں ہر نماز سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو استنجہ کی ضرورت ہوئی اور وہ باہر چلا گیا، کیونکہ اندر اس کی سہولت نہیں ہے، تو پھر وہ باہر ہی رہ جائے گا۔ اسے 44-45 ڈگری درجہ حرارت میں ہی نماز ادا کرنی ہوگی۔ البتہ حرم شریف کے چاروں طرف حماموں کا بہتر انتظام ہے۔ آب زم زم کی بھی کہیں کوئی قلت نہیں۔ حاجی جہاں چاہیں ان کو زم زم مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے ملازمین زم زم کی کین لے کر حرم شریف کے اندر اور مطاف کے علاقے میں بھی ٹہلتے رہتے ہیں۔ البتہ حرم مکی اور حرم نبوی میں چیکنگ کا انتظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم ہر گیٹ پر ایک میٹل ڈیٹکٹر تو نصب ہی کیا جانا چاہیے۔ بعض کمیوں کو چھوڑ دیں تو طواف، سعی اور حرم میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے بہترین انتظامات ہیں۔
سعودی حکومت جہاں عام حجاج کے ساتھ بہتر انسانی سلوک پر زور دیتی ہے وہیں بعض ممالک کے حجاج پر خاص توجہ ہوتی ہے۔ جیسے کہ امسال ایران سے 75 ہزار حجاج پہنچے تھے۔ حکومت نے متعلقہ اداروں کو یہ سخت ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کو کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی ہر خواہش پوری کی جائے۔ ان کی رہائش کا بھی بہترین انتظام تھا۔ اسی طرح فلسطین اور بعض دیگر ملکوں سے آنے والے حجاج کے تمام اخراجات وہاں کی حکومت نے برداشت کیے۔ وہاں انسانی ہمدردی کی متعدد مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اب تھوڑی سی گفتگو ہندوستانی حجاج اور حکومت ہند کے انتظامات کے بارے میں۔ ہندوستانی حجاج کی مختصر سی تعداد کو حرم شریف کے قریب، جسے گرین کٹیگری کہتے ہیں، ٹھہرایا جاتا ہے اور بیشتر کو وہاں سے آٹھ کلومیٹر دور عزیزیہ میں رکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گرین کٹیگری کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے ہوٹل سے قدم باہر نکالا اور حرم میں پہنچ گئے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ کم از کم پندرہ بیس منٹ پیدل چلنے کے بعد حرم پہنچتے ہیں۔ وہاں کے بیشتر ہوٹل پہاڑیوں پر ہیں جس کی وجہ سے معمر حجاج کو پریشانی ہوتی ہے۔ (اس بارے میں ایک رپورٹ قومی آواز میں شائع ہوئی تھی)۔ اس لیے معمر افراد کو گرین کٹگری میں نہیں جانا چاہیے۔ اس کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں کچن کی سہولت نہیں ہے۔ ہوٹل ہی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک عزیزیہ کی بات ہے تو وہاں سیکڑوں عمارتیں ہیں۔ جن میں کچھ اچھی ہیں اور کچھ خراب ہیں۔ کہنے کو تو انھیں ہوٹل کہا جاتا ہے لیکن در اصل وہ کثیر منزلہ عمارتیں یا فلیٹس ہیں۔ ان میں کچن کی سہولت موجود ہے۔ کچھ عمارتوں میں سہولتوں کا انتہائی فقدان ہے۔ شکایت کرنے پر بھی کارروائی میں بہت تاخیر ہوتی ہے۔ البتہ وہاں سے حرم شریف جانے کے لیے بسوں کا انتظام چوبیس گھنٹے رہتا ہے۔ حاجی کبھی بھی آجا سکتے ہیں۔
حج کے سیزن میں مکہ ہو یا مدینہ دونوں مقامات پر دکانداروں کی جانب سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہتا ہے۔ ان سے کچھ کہیے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ یہی تو ہماری کمائی کے دن ہیں۔ عزیزیہ میں حج سے قبل ایک دکان پر ایک برقعے کی قیمت معلوم کی تو اس نے 320 ریال بتائی۔ لیکن حج کے بعد وہی برقعہ 80 ریال میں مل گیا۔ ہر سامان کی قیمت دوگنی تین گنی بڑھا دی جاتی ہے۔ حرم شریف کے اطراف کے بازاروں میں بھی یہی حال ہوتا ہے۔ وہ بھی حاجیوں کو خوب لوٹتے ہیں۔ حرم شریف میں انتظامیہ کے منظور کردہ رضاکار ہوتے ہیں جو وھیل چیئر پر معمر اور معذور حاجیوں کو طواف اور سعی کراتے ہیں۔ آف سیزن میں وہ پچاس ساٹھ ریال لیتے ہیں لیکن حج سیزن میں ڈھائی سو تین سو مانگتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسی مالکان عام دنوں میں حرم سے عزیزیہ کا دس ریال لیتے ہیں لیکن حج سیزن میں ڈیڑھ دو سو ریال لیتے ہیں۔ ان دنوں میں تو مکہ کے کسی بھی گوشے میں جائیں تین گنا چار گنا زیادہ کرایہ لیا جاتا ہے۔
عزیزیہ کی عمارتوں میں اضافی بیڈ لگا دیے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ کمیشن خوری کی اُپج ہوتے ہیں۔ عمارتیں پسند کرنے میں بھی مبینہ طور پر بدعنوانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی حاجیوں کی سہولتوں اور دشواریوں کا معاملہ ہے تو حکومت اور حج کمیٹیوں کو اس سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا۔ دہلی حج کمیٹی کے سی ای او جناب اشفاق عارفی کے مطابق حج انتظامات میں چار ایجنسیاں شامل ہوتی ہیں۔ ہندوستان کی اقلیتی امور کی وزارت سعودی حکومت کے ساتھ مل کر اعلی سطحی فیصلے کرنے کے علاوہ مکہ مدینہ میں قیام، معلموں سے معاہدے اور منیٰ میں خیموں میں قیام اور کھانے کے ریٹ (Rate) کا تعین کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مکہ مدینہ میں رہائش، منیٰ و عرفات میں سہولیات اور واپسی وغیرہ کے معاملات بھی اقلیتی وزارت اور حج کمیٹی دیکھتی ہیں۔
مرکزی اور ریاستی حج کمیٹیاں دستاویزی اور کاغذی کارروائیاں بھی کرتی ہیں۔ مکہ میں عمارتوں کا انتخاب بلڈنگ سلیکشن ٹیم کرتی ہے اور اس کو منظوری بلڈنگ سلیکشن کمیٹی دیتی ہے۔ پہلی میں ریاستی حج کمیٹیوں کے افسران اور دوسری میں حج کمیٹی آف انڈیا کے ممبران ہوتے ہیں۔ اندرون ملک کے انتظامات کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ دار اقلیتی وزارت اور حج کمیٹی ہوتی ہے اور سعودی عرب میں یہ ذمہ داری قونصل جنرل آف انڈیا اور سعودی حکومت پر ہوتی ہے۔
مکہ مدینہ میں انڈین حج مشن کا کام مجموعی طور پر بہتر نظر آیا۔ اس کے پاس جو شکایت پہنچی اس پر کارروائی کی گئی۔ بیمار حجاج کے علاج معالجے کا بھی بہتر انتظام تھا۔ منیٰ میں کھانے کی شکایت کے بعد قونصل جنرل جناب نور الرحمن شیخ اور ڈپٹی قونصل جنرل اور قونصل حج جناب محمد شاہد عالم نے خیموں کا دورہ کیا اور مطبخ کے ذمہ داروں کو ضروری ہدایت دیں۔ لیکن حکومت ہند، ریاستی حج کمیٹیوں اور انڈین حج مشن کو انتظامات کے تعلق سے مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Published: 09 Sep 2018, 6:26 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Sep 2018, 6:26 AM IST