فکر و خیالات

مغفور احمد اعجازی: ایسا مجاہد آزادی جو شاعر بھی تھا اور بہترین مقرر بھی (برسی کے موقع پر خاص)

مغفور احمد اعجازی ایک شاعر اور ادیب ہونے کے علاوہ بہترین مقرر بھی تھے، جو 3 مارچ 1900ء کو بلاک سکرا کے موضع دلیولی ضلع مظفر پور میں پیدا ہوئے۔

مغفور احمد اعجازی
مغفور احمد اعجازی شاہد صدیقی علیگ

 اگر تاریخ جنگ آزادی ہند کی ورق گردانی کی جائے تو اس میں مجاہدین آزادی کی فہرست میں مغفور احمد اعجازی کا نام نمایاں حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ جن کی نس نس میں حب الوطنی اور انگریزوں کے خلاف نفرت پیوست تھی، جو اس وقت آشکار ہوئی جب انہیں نارتھ بروک ضلع اسکول سے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے پر نکال دیا گیا تھا۔

Published: undefined

مغفور احمد اعجازی ایک شاعر اور ادیب ہونے کے علاوہ بہترین مقرر بھی تھے، جو 3؍مارچ 1900ء کو بلاک سکرا کے موضع دلیولی ضلع مظفر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حفیظ الدین حسین کی گنتی حلقے کے ثروت مند اشخاص میں ہوتی تھی۔ اعجازی نے مروجہ دستور کے مطابق پہلے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں تعلیم حاصل کی پھر نارتھ بروک ضلع اسکول میں داخلہ لیا، لیکن وہاں سے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے پر نکال دیا گیا۔ بعد ازاں پوسا ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی این کالج پٹنہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوئے۔ لیکن انگریزی غلامی کا جوا گردن سے اترانے کے لیے اعجازی نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور مہاتما گاندھی کی 1921 عدام تعاون تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اسی سال احمد آباد میں منعقدہ اے آئی سی سی (کانگریس) کے اجلاس میں شرکت کی اور حسرت موہانی کی ’کامل آزادی‘ کی قرارداد کی حمایت کی، جو مہاتما گاندھی کی مخالفت کے سبب منظور نہیں ہو سکی۔ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنسوں میں مرکزی خلافت کمیٹی کی نمائندگی کی۔ محمد علی جوہر کی ایما پر انہوں نے خلافت کمیٹی کلکتہ کا چارج سنبھالا۔ وہاں انہیں نیتا جی سبھاش کی قیادت میں ایک احتجاجی مارچ میں گرفتار کیا گیا۔

Published: undefined

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی تحریک بغیر فنڈ کے نہیں چلتی چنانچہ عجازی نے مظفر پور کی کانگریس اور خلافت کمیٹیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے سات نکاتی پروگرام شروع کیا جس میں ’موٹھیا ‘مہم کا نام قابل ذکر ہے موٹھیا کا مطلب ہر کھانے سے پہلے ایک مٹھی بھر اناج نکالنا تھا، انہوں نے چندہ اکھٹا کرکے ضلع کانگریس کے لیے زمین خریدی جو اب تلک میدان مظفر پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Published: undefined

کھادی اور غیر ملکی سامان کا بائیکاٹ ان کی ترجیجات میں شامل تھا۔ انہوں نے اپنے آبائی موضع دلیولی میں مغربی کپڑوں کی ہولی جلائی۔ ان کی سرگرمیوں کے بموجب مظفر پور ایک انقلابی مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ انگریز حکام نے تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا سہارا لیا۔ عجازی، داؤد اور عبدالودود جیسے بڑے لیڈروں کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا، مگر قید فرنگ بھی ان کا حوصلہ نہ توڑ سکی۔ انہوں نے 1928 میں پٹنہ میں سائمن کمیشن کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی۔ 1941 میں مظفر پور کے بلا لحاظ مذہب وملت لوگوں نے ان کی رہنمائی میں سول نافرمانی تحریک میں پورے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ جسے برطانوی پولیس نے دبانے کے لیے ظلم وستم کی انتہا پار کر دی۔ ان کے ایک پرامن احتجاجی جلوس پر لاٹھی چارج کیا، جس سے اعجازی اور ان کے ساتھی شدید زخمی ہوئے۔

Published: undefined

مغفور احمد اعجازی نے25؍ جولائی 1942 کو اپنے بڑے بیٹے کے انتقال کے باوجود ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا اور 8؍ اگست 1942 کو بمبئی کے گوالیاٹینک میدان میں مولانا آزاد کی قیادت میں منعقدہ اجلاس میں’بھارت چھوڑو‘ قرارداد کو منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تحریک میں ان کی فعال شرکت کی وجہ سے ان کے نام پر گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔ ان کے گھر پر تلاشی کی کارروائی کی گئی۔ بجہت انہوں نے روپوش ہوکر تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن انگریزی حکام سائے کی طرح ان کا پیچھا کر رہے تھے اور آخرکار انہیں گرفتار کر کے دیگر قومی رہنماؤں کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔

Published: undefined

اعجازی نے محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کی پوری شدت سے مخالفت کی یہاں تک کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف 1940 میں آل انڈیا جمہور مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ملک کی آزادی کے بعد مغفور احمد پوری طرح سرگرم رہے۔ جن کی کاوشوں سے اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ عطا ہوا۔ ہندوستان کی آزادی کے عظیم ستارے مغفور احمد اعجازی کا سفر 26 ؍ستمبر 1966 کو اختتام پذیر ہو اور انہیں قاضی محمد پور قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن مغفور احمد اعجازی اپنی بے لوث جاں نثاریوں اور خدمات کے سبب آج بھی محب الوطنوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined