ہندوستان میں کورونا کی آمد کے بعد گزشتہ 15 مہینوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے آج (پیر، 7 جون کو) ایک بار پھر ملک کو خطاب کیا۔ اس بار ان کی پوری تقریر کورونا وبا اور اس سے لڑنے کے لیے ٹیکہ کاری پر مرکوز تھی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ آنے والے دنوں میں ٹیکہ کاری کا سارا کام مرکزی حکومت اپنے ہاتھ میں لے گی اور سبھی ریاستوں کو ٹیکہ مفت میں مہیا کرایا جائے گا۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ملک میں بننے والے مجموعی ٹیکے کا 25 فیصد پرائیویٹ اسپتالوں کو دیا جائے گا اور پرائیویٹ اسپتال ویکسین کی قیمت ے علاوہ فی خوراک زیادہ سے زیادہ 150 روپے سروس چارج کی شکل میں لے سکیں گے۔ پی ایم مودی نے کہا کہ اب ملک کے لیے مکمل ویکسین حاصل کرنے کا کام مرکزی حکومت ہی کرے گی اور ریاستوں کو وقت رہتے بتا دیا جائے گا کہ کس ریاست کو کب اور کتنی ویکسین خوراکیں ملیں گی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ 21 جون سے ملک میں 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے سبھی لوگوں کو ویکسین مفت میں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے پی ایم غریب کلیان ان یوجنا کو بھی دیوالی تک بڑھانے کا اعلان کیا۔ اس منصوبہ میں غریبوں کو راشن مفت دیا جاتا ہے۔
یہ تو رہے وزیر اعظم کے اعلانات۔ لیکن اپنی تقریر کے شروع میں وزیر اعظم نے جو کچھ کہا وہ ہندوستان جیسے تنوع والے جمہوری ملک کے وزیر اعظم کے لفظ کم اور الیکشن کے دوران کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کے زیادہ معلوم ہوئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 سے پہلے تک ملک میں ٹیکہ کاری کوریج صرف 60 فیصد تھا، اور ٹیکہ حاصل کرنے میں دہائی لگ جاتے تھے۔ وزیر اعظم کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی معلوم نہیں پڑتا۔ صرف پولیو کی ہی بات کریں تو ہندوستان کو جنوری 2014 میں پولیو سے پاک اعلان کیا جا چکا ہے، وہ بھی اس سے پہلے کے تین سال تک ملک میں پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہ آنے کے بعد۔ ہندوستان میں پولیو کا آخری کیس جنوری 2011 میں سامنے آیا تھا، اور اس حصولیابی کی وجہ صرف ویکسین ہی تھی جسے پولیو ڈراپ کہا جاتا تھا، یا پھر عوامی زبان میں ’دو بوند زندگی کی‘۔ تو ویکسین مینوفیکچرنگ، ویکسین ڈیولپمنٹ اور ملک کو ویکسین دستیاب کرانے کا پی ایم کا دعویٰ صحیح نہیں لگتا۔
اب دوسری بات، وزیر اعظم نے کہا کہ اس سال جنوری میں ٹیکہ کاری کی شروعات سے لے کر اپریل کے آخر تک ٹیکہ کاری کا سارا کام مرکزی حکومت کی دیکھ ریکھ میں ہی ہو رہا تھا۔ یعنی ویکسین کو خریدنے سے لے کر اس کی تقسیم تک کا کام مرکز ہی کر رہا تھا۔ پی ایم کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سبھی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ میں سبھی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے بعد ہی ایسا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن اگر میڈیا رپورٹس ہی اٹھا کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ کورونا بحران کے درمیان وزیر اعظم کی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگیں کس طرح کی رہی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے ذریعہ میٹنگ کا براہ راست نشریہ کرنے اور جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے ذریعہ پی ایم سے فون پر ہوئی بات چیت سامنے رکھنے سے حالت واضح ہوجاتی ہے۔ تو وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ سارا انتظام ریاستوں سے بات کر کے طے ہوئی تھی، درست نہیں ہے۔
تیسری بات، وزیر اعظم نے کہا کہ ریاستیں خود ہی چاہتی تھیں کہ انھیں بھی ٹیکہ کاری پروگرام میں ذمہ داری دی جائے۔ یہاں وزیر اعظم نے آئین کا بھی تذکرہ کیا کہ آئین کے مطابق صحت اور طب تو ریاستوں کا معاملہ ہے۔ پی ایم نے کہا کہ ریاستوں کی اس گزارش کو مانتے ہوئے ٹیکہ کاری کا 25 فیصد کام ریاستوں کو دے دیا گیا۔ لیکن یہاں پی ایم نے ملک کو یہ واضح نہیں بتایا کہ اس 25 فیصد کام میں کیا کیا دیا۔ ریکارڈ کے لیے بتا دیں کہ مرکز نے ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے ویکسین کی قیمتیں طے کر دیں۔ ہندوستان میں ویکسین بنانے والی دونوں کمپنیوں نے بھی اعلان کر دیا کہ ریاستوں کو ویکسین کی قیمت زیادہ ادا کرنی پڑے گی اور مرکز کو سستی قیمتوں پر ملتی رہیں گی۔ دوسرا یہ کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک کو جتنی ویکسین کی ضرورت ہے، اتنی ویکسین کی مینوفیکچرنگ ابھی نہیں ہو پا رہی ہے، مرکز نے پھر بھی قانون بنا دیا کہ جتنی بھی ویکسین تیار ہوں گی اس کا 50 فیصد مرکزی حکومت ہی خریدے گی۔ اس کے علاوہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی باقی کمپنیاں کسی بھی ریاستی حکومت سے سیدھے سودا نہیں کریں گی، اور مرکزی حکومت سے ہی سودا کریں گی، مرکز نے دنیا کی کمپنیوں سے ریاستوں کو ویکسین خریدنے کے لیے کہہ دیا۔ ایک اور سب سے اہم کام مرکزی حکومت نے یہ کیا کہ ملک میں ویکسین کی مناسب دستیابی نہ ہونے کے باوجود یکم مئی سے 18 سے 45 سال کی عمر کے لیے ٹیکہ کاری شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان کے بعد ویکسین کے لیے افرا تفری مچنا طے تھی۔ وزیر اعظم جس کووِن ایپ کی تعریف اپنی تقریر میں کر رہے تھے، وہ جواب دے گیا اور اس پر ویکسین لگوانے کا سلاٹ ملنا دشوار ہو گیا۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایک سال کے اندر ہی ہندوستان نے کورونا کی ویکسین تیار کر لی۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان کے پاس اس وقت دو دیسی ویکسین ہیں۔ ان کا رویہ ایسا تھا جیسے یہ بھی انہی کی حکومت کی دستیابی ہو۔ لیکن یہاں دھیان دینا ہوگا کہ جو دو ویکسین اس وقت ملک میں دستیاب ہیں، انھیں بنانے والی کمپنیوں کا قیام مودی کے اقتدار میں آنے سے دہائیوں پہلے ہو چکا تھا۔
پوری تقریر میں پی ایم مودی نے ایسا ظاہر کیا جیسے ملک میں ویکسین کو لے کر مچی افرا تفری اور ریاستوں کی نااہلی کے سبب انھوں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ پورے ملک میں ٹیکہ کاری مرکز کرے گا اور سب کو مفت ویکسین ملے گی۔ لیکن یہاں یاد دلانا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ لگاتار مرکز کو ہدایت دیتا رہا ہے کہ پورے ملک میں ٹیکہ کاری کی پالیسی ہونی چاہیے۔
ایک اور بات جو بنیادی طور پر وزیر اعظم مودی کی تقریر میں غلط تھی، وہ تھی ابھی تک ملک میں دی گئی کورونا ویکسین کی تعداد۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جس وقت وہ ملک سے مخاطب ہیں، اس وقت تک ملک میں 23 کروڑ ویکسین کی خوراک دی جا چکی ہیں۔ ان کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں 23 کروڑ لوگوں کو ویکسین دی جا چکی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اب تک ایسے لوگوں کی تعداد 4 کروڑ 62 لاکھ 71 ہزار 709 ہے جنھیں کورونا ویکسین کی دونوں خوراک دی جا چکی ہیں۔
وزیر اعظم کے اس اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کانگریس نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ پی ایم اعداد و شمار کی بازی گری کی جگہ حقیقت ملک کے سامنے رکھتے تو ٹھیک ہوتا۔ کانگریس نے یہ چٹکی بھی لی ہے کہ پورے ملک کو ویکسین مفت مہیا کرانے کے لیے اتنی لمبی چوڑی تقریر اور باتیں کرنے کی جگہ پی ایم نے راہل کے ٹوئٹر ہی چیک کر لیے ہوتے تو سب کچھ آسان ہو جاتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز