عام انتخابات 2024 کے بہت سے رنگ اور بہت سے پہلو ہیں، تاہم ہر رنگ جدا اور ہر پہلو مختلف ہے۔ میدان میں دو اتحاد آمنے سامنے ہیں اور ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن دونوں اتحاد کی کپتانی ایک ایک قائد کرتا نظر آ رہا ہے۔ این ڈی اے یعنی بر سر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کی کپتانی وزیر اعظم مودی کر رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ وہ کپتان ہیں جنہوں نے اپنے اتحاد کو جیتانے کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ حزب اختلاف کا اتحاد یعنی انڈیا نامی اتحاد جس کی قیادت کانگریس کر رہی ہے، اس کے کپتان بظاہر تو راہل گاندھی نظر آ رہے ہیں لیکن انہوں نے جیت کی ذمہ داری کھلاڑیوں میں بانٹ دی ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان انتخابات میں این ڈی اے نامی اتحاد کے کپتان یعنی وزیر اعظم نریندر مودی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، چاہے وہ امیدواروں کا انتخاب ہو یا انتخابی مدوں پر حتمی فیصلہ لینا ہو۔ اور صرف انتخابات ہی نہیں بلکہ کس مدے پر کہاں اور کیسے بولنا ہے اس کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کر رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنے نائب کپتان امت شاہ کی مدد لے لیتے ہیں لیکن باقی کھلاڑیوں کو چاہے نڈا ہوں، راجناتھ سنگھ ہوں، اسمرتی ایرانی ہوں یا اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہوں، کھیلنے کے لئے بیٹ اور گیند تو دے دی گئی ہے لیکن ان کا کب اور کہاں استعمال کرنا ہے اس کا فیصلہ اتحاد کے کپتان ہی کو کرنا ہے۔
Published: undefined
دوسرے اتحاد کی حالت بالکل مختلف ہے اس میں کپتان آئین کی حفاظ کو لے کر چھکے چوکے لگاتے ہیں لیکن ان کے اتحاد کے باقی کھلاڑی جہاں اپنے کپتان کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں وہیں وہ اپنے انداز سے بیٹنگ اور بولنگ بھی کرتے ہیں۔ جیسے تیجسوی یادو نوکریوں کا تڑکا لگاتے ہیں، اکھلیش یادو پی ڈی اے کو لے کر چوکے چھکے لگاتے ہیں، تو مہاراشٹر میں ادھو اور شرد پوار اپنے انداز سے بلے بازی کر رہے ہیں یعنی کپتان کی بات تو کہنی ہے لیکن اپنے انداز سے گیند کو کھیلنا بھی ہے اور پھینکنا بھی ہے۔
Published: undefined
برسر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کو انتخابی مہم کے پہلے دن سے ایسا محسوس ہوا کہ انتخابات کو رام مندر کی تعمیر اور اقلیت مخالف ماحول کی پچ پر ہی کھیلنا ہے اور اس پر رن بنانے اور وکٹ لینے کی ذمہ داری اس اتحاد کے کپتان نے اپنے سر لے لی۔ لہذا کپتان نے جہاں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ میں ہندو مذہبی رہنماؤں کو مدعو نہیں کیا، وہیں انتخابی مہم کے دوران 400 پار، منگل سوتر، بھینس، ٹونٹی، گھس پیٹھیے، مجرا اور گاندھی پر کس طرح بولنا ہے اس کا فیصلہ بھی کپتان کو ہی کرنا ہے۔ کتنے انٹرویو دینے ہیں اور آخری دن کہاں اور کیسے وقت گزارنا ہے یہ بھی خود کپتان کو ہی طے کرنا ہے۔
Published: undefined
اس سارے کھیل میں جہاں ہندوستان کے عوام خاموش ہیں اس کا سہرا ملک کے ماحول کو جاتا ہے کیونکہ ملک کے طبقوں میں پھیلی تقسیم کو یہاں کے عوام سمجھتے ہیں اور اسی تقسیم کی وجہ سے یا تو وہ سامنے والے کے حساب سے بولتے ہیں یا پھر جن کو وہ اپنا معتمد خاص سمجھتے ہیں ان کے سامنے بولتے ہیں یعنی کل ملا کر وہ خاموش ہی رہتے ہیں۔ ویسے تو ایسی پر اثرار خاموشی کسی کو اچھی نہیں لگتی لیکن ایک طبقہ یعنی اقلیت کی خاموشی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اقلیتوں کی اس خاموشی کو خوف یا دور اندیشی جس خانے میں بھی رکھا جائے وہ ملک اور وقت کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
برسر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کے کپتان نے اقلیتوں کے خلاف بہت کچھ کہا لیکن اقلیتوں کی خاموشی نے ان کے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا اور عوام میں اس کپتان کی مقبولیت متاثر ہوئی۔ اس وقت اس خاموشی کے تعلق سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’ایک چپ سو کو ہرائے۔‘ اقلیتوں کو اس خاموشی کو ملک کی ترقی اور اپنے ہم خیال عوام کے مفاد میں برقرار رکھنی ہوگی۔ نتائج کسی کے حق میں بھی آئیں لیکن ملک کی ترقی کے لئے خاموشی ضروری ہے۔ دونوں کپتانوں کی حقیقی بات کو سمجھنے میں چاہے جتنا وقت لگے لیکن جیت آج نہیں تو کل سچائی کی ہی ہوگی اور اگر اقلیتوں نے خاموشی توڑ دی تو ان کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined