سیاست دانوں کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے کا سلسلہ جاری ہے اور جس پارٹی میں بھی یہ سیاست داں شمولیت اختیار کرتے ہیں وہ پارٹی اپنے انداز سے اسے اپنے لئے بڑی کامیابی اور حریف کے لئے زبردست جھٹکے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ انتخابات کے وقت یہ عام بات ہے اور سیاست داں اپنا فائدہ اور نقصان دیکھ کر ہی ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برسراقتدار جماعت وفاداری کی اس تبدیلی میں سب سے زیادہ فائدے میں رہتی ہے اور اگر ہوا کا رخ حکومت وقت کے خلاف ہے تو اس تبدیلی کا فائدہ حزب اختلاف کو بھی ہوتا ہے۔ وفاداریوں کی اس تبدیلی کے باوجود کئی ایشوز ایسے ہوتے ہیں جو عوام کے ذہن میں گھر کر جاتے ہیں۔
Published: undefined
ہندوستانی عوام کو جس ایشو نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے وہ بے روزگاری کا ایشو ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مذہب کے رنگ میں اس طرح رنگ دیا ہے کہ وہ یہ بھول گئے کہ موجودہ حکومت نے سالانہ دو کروڑ روزگار دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ سیاست داں انتخابی تشہیر کے دوران یہ بھی خوب بتائیں گے کہ بے روزگاری نے کتنے سالوں کا ریکارڈ توڑا ہے اور کتنی آسامیاں خالی ہیں اور آگے کے لئے حکومت وقت کی کیا حکمت عملی ہے۔
Published: undefined
ویسے تو منڈل کمیشن کی رپورٹ لاگو ہونے کے بعد سے یا یوں کہئے کہ اس کے توڑ کے طور پر حکومت نے زیادہ تر محکموں میں نجکاری کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا جس کی تشہیر اس طرح کی گئی تھی کہ سرکاری نوکری میں لوگوں کو ضرورت سے زیادہ سیکورٹی کا جو احساس ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے منتخب افراد ملازمت نہیں کرتے اور پرائیویٹ افراد زیادہ بہتر نوکری کرتے ہیں، کیونکہ ان کے اوپر ہٹائے جانے کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے پہلے تو نوکری کا وعدہ ہی کیوں کیا تھا اور وعدے کو پورا کیوں نہیں کیا گیا۔
Published: undefined
انتخابات کا ماحول ہے اس لئے حزب اختلاف بے روزگاری کو انتخابی ایشو ضرور بنائے گی اور پوچھے گی کہ فوج میں چار سال کی نوکری والی اگنی ویر اسکیم کیوں شروع کی گئی، نوکریوں کی آسامیاں کیوں پر نہیں کی گئیں اور اگر امتحان کا اعلان ہو جائے تو پھر پیپر لیک کیوں ہو رہے ہیں اور اسامیاں کیوں پر نہیں کی جا رہی ہیں؟ یہ سب سے ایشوز ہیں جن کا جواب انتخابات کے دوران عوام کے ذہن کو پریشان ضرور کرے گا چاہے وہ کتنا بھی مذہبی کیوں نہ ہو گیا ہو کیونکہ پیٹ سب کے ساتھ جڑا ہے۔
Published: undefined
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آنے والے دن ہمارے جیسے ممالک کے لئے اچھے نہیں ہیں کیونکہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے جیسے زیادہ آبادی والے ممالک کے روزگار پر ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک افرادی قوت کی قلت کو مصنوعی ذہانت سے حل کر لیں گے اور ہمارے جیسے ممالک صرف ان کے سامان کو خریدیں گے اور بیچیں گے یعنی بے روزگاری آنے والے سالوں میں انتہائی خوفناک شکل اختیار کر لے گی۔ اس کے حل کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سرکاری روزگار دئے جائیں اور ان سے کام لینے کے لئے نظر رکھی جائے تاکہ عوام کی قوت خرید تو برقرار رہے۔
Published: undefined
حزب اختلاف سے بھی ویسے کئی سوال کئے جا سکتے ہیں لیکن ’اولڈ پنشن اسکیم‘ کے نفاذ اور بہار میں تیجسوی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے کی وجہ سے حزب اختلاف کے سامنے سوالوں کی بوچھار کم رہے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری نوکری نہ دینے کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن حکومت وقت سے یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ اس نے نوکریوں کا وعدہ کیوں کیا تھا اور نوکریاں اس نے کیوں نہیں دیں؟ وہ اپنے پکوڑے تلنے والے بیان سے مزید پریشانیوں سے دو چار ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined